مہاجرین سے ’ذلت آمیز‘ سلوک، چیک جمہوریہ تنقید کی زد میں
22 اکتوبر 2015عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے کمشنر رعد الحسین نے جمعرات کے روز کہا کہ مہاجرین اور تارکین وطن کی اپنے ملک میں آمد کو روکنے کی خاطر چیک حکومت کی طرف سے بنائی گئی پالیسی کا یہ ایک اہم حصہ معلوم ہوتا ہے کہ ان غیر ملکیوں کو شروع میں نوّے دن تک ’ذلت آمیز‘ حالات میں تحویل میں رکھا جائے۔
الحسین کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ چیک جمہوریہ میں داخل ہونے والے ایسے افراد کی تلاشی بھی لی جا رہی ہے تاکہ ان سے برآمد ہونے والی رقوم سے ان کی تحویل پر اٹھنے والے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔
الحسین نے چیک صدر میلوش زیمان کے ’اسلاموفوبیا‘ پر مبنی بیانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم زیمان نے اقوام متحدہ کی طرف سے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پراگ حکومت اپنے موقف پر برقرار ہے۔ صدر زیمان کے ایک ترجمان کے مطابق، ’’صدر نے مسلم انتہا پسندی کے خطرات سے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا۔ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حکومتی پالیسی میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین UNHCR نے کہہ رکھا ہے کہ ترکی سے طویل سفر کے بعد یونان پہنچنے والے زیادہ تر غیر ملکی شہری اقتصادی وجوہات کے باعث نقل مکانی نہیں کر رہے بلکہ وہ حقیقی مہاجرین ہیں اور اسی لیے پناہ کے مستحق ہیں۔ ان مہاجرین کا تعلق زیادہ تر شام سے ہے۔
چیک صدر زیمان نے اپنے ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ ’وہ (مہاجرین) اسلامی قوانین کا نفاذ چاہیں گے اور عورتوں کو زنا کے نام پر سنگسار کرنے جبکہ چوروں کے ہاتھ کاٹ دینے کی حمایت کریں گے۔‘‘ گزشتہ ہفتے ہی انہوں نے کہا تھا، ’’ہم خواتین کی خوبصورتی سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ انہیں سر سے پاؤں تک برقعوں میں چھپا دیا جائے گا۔‘‘
چیک صدر زیمان کے انہی بیانات کی بازگشت ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کے لہجے میں بھی نظر آ رہی ہے، جنہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں مسیحی روایات کے تحفظ کی خاطر مہاجرین کی آمد کی مخالفت کریں گے۔ اسی مقصد کے لیے ہنگری سربیا اور کروشیا سے متصل اپنی سرحدی گزرگاہوں کو بند بھی کر چکا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے چیک حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی قوابین بہت واضح ہیں کہ مہاجرین کو تحویل میں لینا درپیش مسائل کے حل کے لیے آخری طریقہ کار ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہاجر ہونے کی بنا پر بچوں یا ان کے والدین کو حراست میں لینا بہتر طریقہ کار نہیں ہو سکتا اور یہ عمل قابل قبول بھی نہیں ہے۔
الحسین کے مطابق چیک جمہوریہ میں متعدد مہاجرین نے عدالتوں سے رابطہ کر کے آزادی بھی حاصل کی ہے لیکن زیادہ تر مہاجرین اپنے حقوق سے بے خبر ہیں جبکہ ملک میں داخل ہوتے ہی ان مہاجرین کے موبائل فونز اور دیگر سامان کو ضبط کر لیا جاتا ہے، اس لیے وہ کوئی مشاورت یا مدد حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتے۔