مہاجرین سے نفرت کرنے والے سیاست دان کے ساتھ ’تقدیر کا مذاق‘
22 مارچ 2016جرمن میڈیا رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این پی ڈی) کے انتیس سالہ سٹیفان یاگش نامی سیاست دان ایک کار حادثے کے دوران شدید زخمی ہو گئے۔
میرکل نے بالآخر مہاجرین دوست پالیسی پر یوُ ٹرن لے لیا
یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس نیو نازی سیاست دان کی زندگی دو شامی پناہ گزینوں کی بدولت بچ گئی۔ جرمن وفاقی ریاست ہیسے کے بُوڈنگن نامی شہر کے قریب جس وقت یاگش کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو ایک منی بس جائے حادثہ پر رکی۔
مقامی فائر بریگیڈ کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ منی بس میں دو شامی تارکین وطن بھی سوار تھے۔ انہوں نے فوری طور پر شدید حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی سے یاگش کو نہ صرف باہر نکالا بلکہ اسے فوری طور پر ابتدائی طبی امداد بھی مہیا کی۔
لاکھوں تارکین وطن اور مہاجرین کی جرمنی آمد کے بعد بُوڈنگن شہر میں بھی مہاجرین کے لیے کیمپ بنایا گیا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کو جرمنی آنے کی اجازت دینے کے بعد مہاجرین کے خلاف نفرت آمیز حملوں اور غیر ملکیوں سے نفرت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مہاجر مخالف جماعتوں کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
رواں برس چھ مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس علاقے میں دس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ سٹیفان یاگش این پی ڈی کی جانب سے مرکزی امیدوار کے طور پر انتخابات میں شامل ہوئے تھے۔
جرمنی کے ایک مقامی اخبار سے کی گئی اپنی گفتگو میں این پی ڈی کے صوبائی سربراہ ژان کرسٹوفر فیڈلر نے تارکین وطن کی جانب سے یاگش کی جان بچانے کے عمل کو ’بظاہر بہت اچھا اور انسانی عمل‘ قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ یاگش کو اس حادثے کے بارے بہت کم یاد ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل این پی ڈی کی سیاست کی شدید ناقد ہیں۔ چانسلر دفتر کے ایک بیان کے مطابق این پی ڈی ’غیر جمہوری، غیر ملکیوں کی دشمن، سام دشمن اور غیر آئینی‘ جماعت ہے۔ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی پارلیمانی درخواست کا جائزہ بھی لے رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی تارکین وطن کی جانب سے اس نسل پرست سیاست دان کو بچانے کے واقعے پر بحث جاری ہے۔ فیس بُک پر ایک جرمن شہری نے لکھا، ’’تقدیر میں بھی مذاق چھپا ہوتا ہے۔‘‘