مہاجرین مخالف پالیسی: ’ہنگری کو یورپی یونین سے نکالا جائے‘
13 ستمبر 2016ایسل بورن نے یہ باتیں منگل تیرہ ستمبر کو جرمن اخبار ’دی وَیلٹ‘ سے گفتگو میں کہیں۔ ایسل بورن نے کہا: ’’ہمارے لیے یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ یورپی یونین کی بنیادی اَقدار کو اِس بُری طرح سے پامال کیا جائے۔‘‘
ایسل بورن کا سخت الفاظ پر مشتمل یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب سلوواکیہ کے دارالحکومت براتسلاوا میں یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس کے انعقاد میں محض چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔
ایسل بورن نے مزید کہا: ’’ہنگری کی طرح کا کوئی بھی ملک، جو جنگ سے تنگ آ کر فرار ہونے والے مہاجرین کو روکنے کے لیے باڑیں تعمیر کرتا ہے یا پریس اور عدالتی نظام کی آزادی کو پامال کرتا ہے، اُسے اگر مستقل نہیں تو عارضی طور پر یورپی یونین سے خار ج کر دیا جانا چاہیے۔‘‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کی مہاجرین کی جانب سخت بیان بازی اور اُنہیں اپنی سرزمین سے دور رکھنے کے لیے جنوبی سرحدوں پر باڑیں تعمیر کرنے جیسی سخت پالیسیوں کی وجہ سے یورپی یونین کے ساتھی رکن ممالک آج کل اُن سے بہت نالاں ہیں۔
اوربان کے احکامات کے تحت آئندہ مہینے ہنگری میں ایک ریفرنڈم بھی منعقد ہونے والا ہے، جس میں اوربان نے ہنگری کے عوام پر یورپی یونین کے اُس کوٹہ سسٹم کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے کہا ہے، جس کا مقصد یونین کے مختلف رکن ملکوں کو مہاجرین کی ایک مخصوص تعداد کو اپنے ہاں قبول کرنے کا پابند بنانا ہے۔
ایسل بورن نے کہا کہ یورپی یونین کو اس طرح کا طرزِ عمل برداشت نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ ’یورپی یونین کی سالمیت اور اَقدار کو بچانے کا واحد راستہ‘ ایسے کسی ملک کا یونین سے اخراج ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں قواعد و ضوابط میں ایسی تبدیلی کافی مددگار ثابت ہو گی، جس کے تحت کسی ملک کی رکنیت اتفاقِ رائے سے کیے گئے کسی فیصلے کے بغیر بھی معطل کی جا سکتی ہو۔
ایسل بورن کے مطابق جنگ سے بچنے کے لیے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے والے انسانوں کے ساتھ ہنگری میں جنگلی جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے: ’’ہنگری مہاجرین کو اپنی سرزمین سے دور رکھنے کے لیے جو باڑ بنا رہا ہے، وہ لمبی سے لمبی، بلند سے بلند اور خطرناک سے خطرناک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہنگری اب اس اقدام سے زیادہ دُور نہیں رہ گیا کہ وہاں مہاجرین کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا جائے۔‘‘
اُدھر ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سِیارتو نے ایسل بورن کو ایک ’غیر سنجیدہ شخصیت‘ قرار دیتے ہوئے اُن کے بیان کو رَد کر دیا ہے۔