1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری: ریفرنڈم سے قبل مہاجر مخالف مہم میں تیزی

عاطف بلوچ3 ستمبر 2016

ایک کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی یونین رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں ہنگری میں ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں ایک ماہ رہ گیا ہے۔ اس تناظر میں ہنگری حکومت اپنی مہاجرت مخالف مہم میں تیزی لے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JvCq
Deutschland Medizinische Versorgung Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

ہنگری میں جاری مہاجر مخالف مہم میں نہ صرف سڑکوں پر بڑے بڑے بل بورڈز نصب کر دیے گئے ہیں بلکہ سرکاری ٹیلی وژن پر بھی اشتہارات نشر کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم وکٹور اوربان اور ان کی حکمران فیدس پارٹی کی کوشش ہے کہ وہ عوام کو قائل کر لیں کہ یورپی یونین کی طرف سے مہاجرین کی تقسیم کا کوٹہ سسٹم مسترد کر دیا جائے۔

اس سلسلے میں ہنگری میں دو اکتوبر کو ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ عوام فیصلہ کرے گی کہ آیا انہیں یہ کوٹہ سسٹم منظور ہے یا نہیں۔ تاہم اس تناظر میں ناقدین کے مطابق حکومت عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری مہاجر مخالف مہم میں عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مہاجرین کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو نظر انداز نہ کریں۔ بل بورڈز اور ٹیلی وژن کے اشتہارات میں عوام کو یہ باور بھی کرایا جا رہا ہے ، ’کیا آپ جانتے ہیں کہ مہاجرین کے بحران کے آغاز سے اب تک یورپ میں ہوئے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں تین سو افراد مارے جا چکے ہیں‘۔ اسی طرح ہنگری کی حکومت عوام کو یہ بھی بتا رہی ہے کہ لیبیا سے ایک ملین مہاجرین یورپ آنے کی خاطر پر تول رہے ہیں۔

ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ دوسری طرف ناقدین کے مطابق مہاجر مخالف پالیسیوں میں بوڈا پیسٹ حکومت نے ایک ’نفرت انگیز مہم‘ شروع کر رکھی ہے۔

ہنگری میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔

یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کے حالیہ بحران کے نتیجے میں شورش زدہ ملکوں اور خطوں سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس کی خاطر یورپی حکام نے ایک فارمولا بھی تیار کر لیا ہے تاکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کسی بھی یورپی ملک پر کوئی اضافی بوجھ نہ پڑے۔

Ungarn Anti-Immigrations Plakate der Regierung
مہاجر مخالفف اس بل بورڈ پر لکھا ہے، ’اگر تم ہنگری آتے ہو تو ہنگری کے شہریوں کی ملازمتیں نہ چھین لینا‘تصویر: Getty Images/AFP/A. Kisbenedek
Ungarn Viktor Orban
ہنگری کے قدامت پسند وزیر اعظم وکٹور اوربان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ مہاجرین کو پناہ دینے کے خلاف ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/S. Koszticsak
Ungarn Illegale Einwanderer an der Grenze zu Serbien
ہنگری میں غیر قانونی مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے سخت انتظامات کیے گئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/J. Koller

ہنگری کے قدامت پسند وزیر اعظم وکٹور اوربان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ مہاجرین کو پناہ دینے کے خلاف ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر ان کی حکومت نے کروشیا اور سربیا سے متصل سرحدوں پر باڑیں نصب کر دی ہیں کہ مہاجرین ہنگری میں داخل نہ ہوں سکیں۔ وہ مہاجرین کے یورپی ملکوں میں تقسیم کے مجوزہ منصوبے کے بھی شدید خلاف ہیں۔

اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔ یورپی یونین رکن ریاستوں نے گزشتہ برس ستمبر میں اتفاق کیا تھا کہ یورپ آنے والے ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کو منصفانہ طور پر ایک کوٹے کے تحت اٹھائیس رکنی اس بلاک کی مخلتف ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے گا تاکہ کسی ایک ملک پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں