’مہاجرین کو کام کی کتنی اجرت دی جائے‘، جرمنی میں نئی بحث
25 دسمبر 2015رواں برس دس لاکھ مہاجرین جرمنی آئے، یوں یہ سال تارکین وطن کی آمد کا سال رہا۔ اگلے ہفتے سے شروع ہونے والا نیا سال تارکین وطن کے لیے جرمن معاشرے میں انضمام اور روزگار کی تلاش کا سال ہو گا۔ جرمنی کی روزگار کی منڈی میں یہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
جرمن کاروباری اداروں اور شخصیات کی جانب سے ایسی تجاویز سامنے آ رہی ہیں کہ مہاجرین کے لیے کم از کم اجرت کی حد عام جرمن شہریوں کی نسبت کم رکھی جائے تاکہ انہیں جلد کام مل سکے۔
اس کے برعکس ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو کم اجرت پر کام نہیں دینا چاہیے۔ محکمہٴ روزگار کے سربراہ فرانک یُرگن وائزے نے بھی ایسی تجاویز کی مخالفت کی ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وائزے کا کہنا تھا کہ مہاجرین کو آغاز ہی سے جرمنی میں مقرر کردہ کم از کم اجرت یعنی ساڑھے آٹھ یورو فی گھنٹہ ہی ملنی چاہیے۔
معاشیات پر تحقیق کرنے والے ایک معتبر ادارے کے سربراہ رائنٹ گراپ نے کم اجرت کی تجاویز کے مضمرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی لوگوں اور تارکین وطن کی اجرتوں میں فرق سے ’’تارکین وطن کا استحصال ہونے کے علاوہ نوکریاں تلاش کرنے والے مہاجرین اور مقامی لوگوں کے درمیان تنازعات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔‘‘
وائزے کا کہنا ہے کہ لیبر مارکیٹ یا افرادی قوت کی منڈی کو اچھی طرح سے جاننے کی وجہ سے ان کا موقف بہت واضح ہے۔ وائزے کا کہنا ہے کہ کم اجرت پر زیادہ پناہ گزینوں کو کام دینے کی بجائے جرمنی میں پہلے سے مقرر کردہ کم از کم اجرت پر تھوڑے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
وفاقی ادارہ برائے روزگار کے سربراہ نے تارکین وطن کے لیے کم از کم اجرت کی شرط ختم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تاجروں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ’مہاجرین کے لیے کم از کم اجرت کتنی ہونی چاہیے؟‘ بلکہ انہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ’موجودہ حالات میں وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟‘
قبل ازیں جرمن چیمبر آف کامرس کے سربراہ ایرک شوائٹزر نے کہا تھا کہ تارکین وطن کو ’طویل مدتی بے روزگاروں‘ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور انہیں کام دینے کے لیے کم از کم اجرت کی شرط کو کچھ عرصے کے لیے ختم کر دینا چاہیے۔
ماہرین معیشت کے مطابق مہاجرین کی وجہ سے جرمنی میں بے روزگاری کی شرح میں بہت کم اضافہ ہو گا۔ اگلے برس ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پناہ گزین کام کرنا شروع کر دیں گے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ تارکین وطن کی وجہ سے مستقبل میں جرمن معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
پناہ گزینوں کے لیے ملازمت کی تلاش میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ان کے پاس رسمی قابلیت اور تجربے کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہوتا۔ مرسڈیز گاڑیاں بنانے والی جرمن کمپنی ڈائملر کے ترجمان نے رواں ہفتے کہا تھا کہ کوئی سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے تارکین وطن کو غیر ہنرمند نہیں سمجھنا چاہیے۔
ڈائملر کے ترجمان نے حکومت کی جانب سے پناہ گزینوں کو پہلے پندرہ ماہ کے دوران جز وقتی ملازمت نہ دینے کے قانون کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ واضح رہے کہ جرمنی کی وفاقی حکومت نے رواں برس پناہ گزینوں کے لیے جزوقتی ملازمت پر پابندی کی مدت چار برس سے کم کر کے پندرہ ماہ کر دی تھی۔