1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی کہانیوں پر مبنی کامکس

شمشیر حیدر27 اپریل 2016

حیدر نے جب اسمگلر کے حکم پر رات کی تاریکی میں گہرے سمندر میں چھلانگ لگا ئی تو اسے لگا کہ اس کے سفر اور زندگی کا اختتام ہونے والا ہے لیکن اچانک اوپر پرواز کرتے ہیلی کاپٹر کی سرچ لائٹ اس پر پڑی، اسے بچا لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1IdZj
Szene aus Comic Hayder von Wolfgang Speer
تصویر: Wißner-Verlag/Wolfgang Speer

حیدر اب جرمن شہر آؤگسبرگ میں قائم ’گرینڈ ہوٹل‘ میں رہ رہا ہے۔ حیدر کے سفر کی کہانی کو آؤگسبرگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ڈیزائن کے ایک طالب علم وولف گانگ سپیئر نے ایک ’کامک بُک‘ یا باتصویر کتاب کے ذریعے بیان کیا ہے۔

جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

چودہ صفحات پر مشتمل یہ کامک بُک ’گرینڈ ہوٹل سے کہانیاں‘ نامی ایک کتابی سلسلے کا حصہ ہے۔ زندگی کے رنگوں کی طرح رنگین کامکس کا یہ سلسلہ آؤگسبرگ یونیورسٹی کے ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم طلبا نے تیار کیا ہے، جن میں آٹھ تارکین وطن کی ہجرت کی کہانیوں کو تصویروں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی سے وابستہ ڈیزائن کے پروفیسر مائیک لوُس کا کہنا ہے کہ اس کتابی سلسلے کی بنیاد تین سال قبل رکھی گئی تھی اور گزشتہ برس انہوں نے ایک ورکشاپ کے دوران اپنے طلبا کو پناہ گزینوں کی رہائش گاہ کو موضوع بنانے کے لیے کہا۔

پروفیسر لوُس نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا، ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس اسائنمنٹ پر طلبا کا ردِعمل کیا ہو گا لیکن تمام طلبا نے کھلے ذہن کے ساتھ اسے قبول کیا اور بالآخر چودہ طلبا نے کامکس کے ذریعے تارکین وطن کی کہانیاں بیان کیں۔ ان میں سے ہر ایک منفرد کتاب تھی۔‘‘

گرینڈ ہوٹل کبھی بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد کے لیے ایک اولڈ ہاؤس کے طور پر زیر استعمال تھا تاہم 2013ء میں یہاں مہاجرین، فنکاروں اور ہوٹل کے مہمانوں کو ایک ہی چھت تلے رکھنے کا منصوبہ شروع کیا گيا۔ اسی انفرادیت نے گرینڈ ہوٹل کو ایک ماڈل پراجیکٹ بنا دیا جہاں ایک چھت تلے مختلف نوع کی کہانیاں موجود ہیں۔

Augsburg Geschichten aus dem Grandhotel
2013ء سے گرینڈ ہوٹل میں مہاجرین، فنکاروں اور ہوٹل کے مہمانوں کو ایک ہی چھت تلے رکھنے کا منصوبہ شروع کیا گيا۔تصویر: Wißner-Verlag

ایسی ہی کہانیوں میں سے ایک داستان فلسطین سے تعلق رکھنے والے ايک پناہ گزین کی بھی ہے جسے مارٹا نیگیلے نامی طالب علم نے قلم بند کیا اور جس میں اس فلسطینی مہاجر کی اپنے وطن سے وابستہ یادوں کو دکھایا گیا ہے۔ ہوٹل میں مقیم کچھ لوگ ٹرین کے ذریعے سفر کر کے وہاں تک پہنچے ہیں تو کچھ خستہ حال کشتی کے ذریعے بحیرہ روم عبور کر کے۔

حیدر کے سفر پر مبنی کامک بُک بنانے والے پچیس سالہ طالب علم وولف گانگ شپیئر کا کہنا تھا، ’’کتاب کے لیے تحقیق کرتے ہوئے میں نے حیدر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھا اور جانا۔ ہر کوئی مہاجرین کے بارے میں رائے تو رکھتا ہے لیکن ان سے بات کوئی بھی نہیں کرتا۔ انسان کسی چیز سے خوف زدہ تب ہی ہوتا ہے جب وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ترکی سے مہاجرین کی یورپ قانونی آمد بھی شروع

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید