مہاجرین کے لیے کیمپوں کی زندگی اعصاب شکن
30 ستمبر 2015مہاجرين کے ايک کيمپ ميں کھانے کی تقسيم کے دوران قطار ميں معمولی سا جھگڑا چند لمحوں ميں باقاعدہ تصادم کی صورت اختيار کر گيا۔ ہاتھا پائی سے لے کر لاٹھی چارج اور پيپر اسپرے تک، جس کے جو ہاتھ لگا، اُس نے اٹھا کر حريف کو دے مارا۔ جرمن شہر کاسَل ميں مہاجرين کے ايک کيمپ ميں گزشتہ اتوار کے روز رونما ہونے والے اِس واقعے ميں 70 پاکستانی اور البانيا کے 300 شہری ملوث تھے۔50 پوليس اہلکاروں کی مدد سے جب تک یہ معاملات کچھ ٹھنڈے پڑتے، 14 افراد زخمی ہو چکے تھے۔
اگرچہ جرمنی ميں موجود عارضی رہائش گاہوں ميں اِس نوعيت کے واقعات کی تعداد زيادہ نہيں تاہم ان سے اِس بات کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے کہ شورش زدہ ملکوں سے آنے والے پريشان حال افراد کو اپنی ہی طرح کے ديگر لوگوں کے ہمراہ مشکل حالات ميں رہتے ہوئے کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ايک اور واقعے ميں قريب چھ ہفتے قبل وسطی جرمن شہر زُول ميں ايک پچيس سالہ تارکين وطن نے مبينہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کی، جس کے نتيجے ميں شروع ہونے والی لڑائی ميں چھ پوليس اہلکار اور 11 مہاجرين زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں مقامی پوليس نے ويڈيو شواہد ديکھنے کے بعد پندرہ افراد کو حراست ميں لے ليا، جن پر اقدام قتل اور دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اِنہی واقعات کے تناظر ميں جرمن پوليس کی يونين اب يہ زور دے رہی ہے کہ مہاجرين کی تقسيم مذاہب اور اُن کے آبائی ممالک کی بنياد پر کی جائے تاکہ تصادم کے ممکنہ واقعات سے بچا جا سکے۔ اِس کے برعکس ناقدين کا کہنا ہے کہ ايسی بنيادوں پر مہاجرين کی تقسيم سے غلط پيغام ملتا ہے۔ جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈی ميزيئر بھی مہاجرين کی مذاہب اور شہريت کی بنياد پر تقسيم کو موجودہ حقائق کی روشنی ميں خارج از امکان قرار دے چکے ہيں۔
جرمن دارالحکومت برلن کے ولمرز ڈورف ڈسٹرکٹ ميں سابقہ نازی دور کے ٹاؤن ہال ميں ان دنوں مہاجرين کے ليے عارضی رہائش کا انتظام کيا گيا ہے۔ وہاں 850 مہاجرين قيام کيے ہوئے ہيں، جن کی اکثريت شامی، عراقی اور افغان باشندوں کی ہے۔ اس کيمپ ميں مقيم تين افريقی مہاجرين کا کہنا ہے کہ وہ ہفتوں سے انتظار کر رہے ہيں جبکہ اِس دوران سياسی پناہ کے ليے شامی باشندوں کی درخواستوں پر کافی تيز کارروائی جاری ہے۔ وہ شکايت کرتے ہيں کہ ايسے کيمپوں ميں کھانے اور سونے کے علاوہ کرنے کو کچھ نہيں۔
اسی کيمپ ميں موجود پاکستان سے تعلق رکھنے والے پندرہ سالہ محمد عزیر نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ وہ جرمنی، طالبان جنگجووں کے ہاتھوں اپنے والد کی ہلاکت کے بعد پہنچے۔ کيمپ ميں زندگی کے بارے ميں اُن کا کہنا ہے، ’’يہاں لوگوں کی بھيڑ ہے، کھانا اچھا نہيں ہے۔ ميں واپس اپنے ملک جانا چاہتا ہوں۔‘‘ عزیر کے بقول کيمپ ميں اُن کے ايک دوست کے موبائل فون سميت کپڑے اور 100 يورو بھی چوری ہو چکے ہيں جبکہ ايک شامی باشندہ ہر وقت عرب زبان ميں چيختا، چلاتا رہتا ہے۔
مہاجرت سے متعلق مشاورت فراہم کرنے والے ايک ادارے FaZIT سے وابستہ ڈاکٹر جيسيکا کاراگوئيل کہتی ہيں کہ چھوٹی سی جگہ پر زيادہ تعداد ميں لوگوں کا ہونا، پرائيوسی کا نہ ہونا اور يہ حقيقت کے کہ مختلف ممالک کے لوگ ايک دوسرے سے بات چيت نہيں کر سکتے وہ اہم وجوہات ہيں جو کشيدگی کا سبب بنتی ہيں۔ اُنہوں نے مزيد بتايا، ’’اضافی دباؤ اِس ليے بھی پڑتا ہے کيونکہ مہاجرين کو بيرونی ملک ميں سياسی پناہ کے ايک ايسے پيچيدہ مرحلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جس پر اُن کی کوئی دسترس نہيں۔ نہ ہی اُنہيں يہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس مرحلے ميں کتنا وقت لگے گا اور اِس کا نتيجہ مثبت ہو گا يا منفی۔‘‘