1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار سوچی کو رہا کرے، سلامتی کونسل

14 اگست 2009

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے میانمار حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آنگ سان سوچی کو رہا کر دے۔ منگل کو سوچی کی نظربندی میں توسیع کے عدالتی فیصلے کے بعد سلامتی کونسل کی جانب سے ردعمل ظاہر کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔

https://p.dw.com/p/J8i6
تصویر: AP

تاہم 15 رکنی اس کونسل نے سوچی کی نظربندی کی توسیع پر ینگون حکومت کی مذمت نہیں کی ہے۔

حزب اختلاف رہنما سوچی کے خلاف اپنی نظربندی کے ضوابط کی خلاف ورزی پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس کا فیصلہ منگل کو سنا دیا گیا۔

عدالت کے فیصلے کے تحت نوبل امن انعام یافتہ سوچی کی نظربندی میں ڈیڑھ سال کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر ینگون حکومت کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کے لئے منگل کو ہی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوا تھا جسے بعدازاں بدھ تک ملتوی کر دیا گیا۔ منگل کو چین، ویت نام اور روس نے اس مسودے پر اپنی اپنی حکومتوں سے مشاورت کے لئے وقت طلب کیا تھا۔

تاہم بدھ کو ہونے والا اجلاس بھی منسوخ کر دیا گیاتھا جس سے میانمار کے خلاف کسی لائحہ عمل کے اعلان کے لئے سلامتی کونسل کی ہچکچاہٹ ظاہر ہوتی ہے۔

یورپی سفارت کار اُمید کر رہے تھے کہ سلامتی کونسل سوچی کی رہائی کے لیے میانمار فوجی حکومت پر دباؤ دے گی اور ان کی نظربندی میں اضافے پر ینگون حکومت کی سختی سے مذمت کرے گی تاہم سلامتی کونسل کو اس حوالے سے چین کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا جو اس کا رکن ہونے کے ساتھ میانمار کا اتحادی بھی ہے۔

Aung San Suu Kyi Flash-Galerie
بنکاک میں میانمار کے سفارت خانے کے سامنے سوچی کی رہائی کے لئے مظاہرہتصویر: picture-alliance/ dpa

رواں ماہ کونسل کی قیادت کرنے والے برطانوی سفارت کار John Sawers نے بدھ کو اجلاس کے انعقاد سے قبل اس حوالے سے اپنے چینی ہم منصب Liu Zhenmin سے ملاقات میں انہیں امریکی بیان کے مسودے پر مفاہمت کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بعدازاں یہ اجلاس ہی منسوخ کر دیا گیا تھا۔

تاہم بیجنگ حکومت نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ میانمار کی عدالتی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہئے۔

چین میانمار کا ایک اہم اتحادی ہے اور ایک عرصے سے اسے اقوام متحدہ کی پابندیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم 2.6 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح بیجنگ حکومت ایک مستحکم ہمسایہ ملک کا وجود یقینی بنائے ہوئے ہے اور ساتھ ہی اسے میانمار کے قدرتی وسائل تک بھی رسائی حاصل ہے۔

امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے آنگ سان سوچی کے خلاف حالیہ عدالتی فیصلے پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اس فیصلے کو انسانیت سوز جبکہ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے ظالمانہ قرار دیا تھا۔ یورپی یونین نے اس قدم کے بعد میانمار پر پابندیاں مزید سخت کرنے کا عندیہ دیا بھی دیا ہے۔ یورپی کمیشن کے ایک ترجمان نے اس فیصلے کو غیرمنصفانہ جبکہ جرمنی کے وزیرخارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

رپورٹ: ندیم گل

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں