میانمار میں مشتعل بودھ ہجوم نے ایک اور مسجد کو آگ لگا دی
2 جولائی 2016میانمار، جسے ماضی میں برما کہا جاتا تھا، کے سب سے بڑے شہر ینگون سے ہفتہ دو جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ بپھرے ہوئے بودھ ہجوم کے ہاتھوں اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی ایک اور عبادت گاہ کے نذر آتش کیے جانے کا واقعہ کل جمعہ یکم جولائی کو ملک کے ایک شمالی گاؤں میں پیش آیا، جس کے بعد آج ہفتے کو اس گاؤں کو بودھ بلوائیوں کے مزید حملوں سے بچانے کے لیے تقریباﹰ سو مسلح پولیس اہلکار تعینات تھے۔
گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے بھی کم عرصے میں اور مسلمانوں کے لیے مقدس رمضان کے اسلامی مہینے کے دوران مذہبی منافرت کے باعث کیے جانے والے ان دو نئے حملوں کے بعد حکومت پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حملے اس امر کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیا کی اس ریاست میں مسلم مخالف سوچ مسلسل شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
میانمار ایک بودھ اکثریتی ملک ہے، جہاں روہنگیا نسل کی ایک بڑی مسلم اقلیت بھی رہتی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اس ملک میں مذہبی بنیادوں پر خونریزی اور بلووں کے بہت سے ہلاکت خیز واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔ ان واقعات پر قابو پانا نوبل امن انعام یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کی پارٹی کی قائم کردہ نئی ملکی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ تازہ واقعے میں ملک کی شمالی ریاست کاچین میں کان کنی کے لیے مشہور علاقے پکانٹ (Hpakant) میں بودھ دیہاتیوں کے ایک بڑے مشتعل ہجوم نے کل جمعے کے روز مسلمانوں کی ایک مسجد پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی۔
ایک مقامی پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ مسئلہ اس وجہ سے شروع ہوا تھا کہ مسلمانوں کی مسجد ایک بودھ عبادت گاہ یا پگوڈا کے قریب تعمیر کی گئی تھی۔ جب بودھ شہریوں کو پتہ چلا تو مسلمانوں نے اس مسجد کو گرانے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘
مقامی پولیس کے مطابق اس وقت اس گاؤں میں پولیس کے 90 سے زائد اہلکار تعینات ہیں اور صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے۔ تاہم ابھی تک اس مسجد کو نذر آتش کرنے کے الزام میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
مسجد پر حملے اور آتش زنی کا یہ نیا واقعہ اس واقعے کے صرف آٹھ روز بعد پیش آیا، جب وسطی میانمار کے علاقے باگو میں بھی بودھوں کے ایک مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کی ایک مسجد کو تباہ کر دیا تھا۔ اس آتش زنی کے بعد مقامی مسلم آبادی کے افراد ایک قریبی قصبے میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ میانمار میں بودھ مذہبی اکثریت اور روہنگیا مسلم اقلیت کے مابین کشیدگی مغربی صوبے راکھین میں بھی دوبارہ سے شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، جہاں 2012ء میں بہت زیادہ ہلاکتوں کا سبب بننے والے مذہبی فسادات دیکھنے میں آئے تھے۔ ان فسادات کے بعد وہاں بودھ اور مسلم برادریاں مذہبی بنیادوں پر پریشان کن حد تک تقسیم ہو کر رہ گئی تھیں۔
میانمار میں روہنگیا مسلمان انتہائی محرومی اور غربت کی زندگی گزارتے ہیں، وہ تقریباﹰ سارے ہی بہت گندے مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور قانونی طور پر انہیں میانمار کے شہری بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس وجہ سے میانمار میں یہ روہنگیا مسلم اقلیت عملی طور پر بے وطن ہے۔