میانمارمیں انتخابات ، فوجی حکومت کی تیاریاں
30 اگست 2010میانمار میں اس سال نومبر میں پارلمیانی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں پہلی مرتبہ ہونے والے ان انتخابات کا بظاہر کوئی فائدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ میانمار کی فوجی حکومت نے اس کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔
مینمار کے تاریخی انتخابات میں ابھی کچھ ہفتے باقی ہیں۔ تاہم ملک کی فوجی حکومت نے اس کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فوج کے کئی اعلی افسراں اپنے عہدوں سے مستفی ہوگئے ہیں تاکہ وہ آئندہ بننے والی سول حکومت میں شامل ہو کر اسے کنٹرول کر سکیں۔ میانمار کے فوجی ذرائع کے مطابق جن افسراں نے استعفے دئے ہیں ان میں حکومت کے سربراہ جنرل تھان شوے بھی شامل ہیں۔ ٹی وی چینل Democartic Voice of Burma کے مطابق اگر جنرل تھان شوے اور ان کے نائب جنرل شوے مان فوجی کی حمایت یافتہ پارٹی میں شامل ہوتے ہیں، تو انتخابات کے بعد ملکی باگ ڈور بھی انہیں افراد کے ہاتھ میں ہو گی۔
میانمار میں اپوزیشن کی جماعتوں اور عالمی براداری کو سات نومبرکو ہونے والے ان انتخابات کا بہت شدت سے انتظار ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پہلے ہی ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکی ہے۔ 1990ء میں ہونے والے الیکشن میں یہ جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسیNLD کی نظر بند سربراہ آنگ سان سوچی نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ غلط جماعت کو ووٹ دینے سے اچھا ہے کہ ووٹ کا حق استعمال نہ کیا جائے ۔
NLD سےالگ ہونے والی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے متنازعہ انتخابی قوانین اپوزیشن جماعتوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ عوامی اجتماعات، پوسٹر اور پمفلٹ تقسیم کرنے پر پابندی کی وجہ سے انہیں اپنا پیغام عوام تک پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی اگر کسی امیدوار نے اپنی مہم کے دوران فوجی حکومت کے خلاف کے کوئی بات کی تو اسے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا۔