میرکل کا دورہ ترکی، تبصرہ
9 فروری 2016یورپ میں جاری مہاجرین کے موجودہ بحران میں اب نیٹو بھی شامل ہو چکا ہے۔ مہاجرین کو ترک ساحلوں سے یونان کی جانب سفر کرنے سے روکنے کے لیے نیٹو ترک اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرے گا۔
یہ فیصلہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوگلُو کے مابین گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں کیا گیا ہے۔ نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کا اجلاس پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق بدھ کے روز برسلز میں منعقد ہو رہا ہے۔ اب اس اجلاس کے دوران مہاجرین کے بارے میں پالیسی میں نیٹو کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔
اس صورت حال میں ایک بات تو واضح ہے کہ یورپی یونین کے پاس مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی مشترکہ منصوبہ نہیں ہے۔ بات جب یورپی یونین کی ہے تو اس تناظر میں ترکی بھی یونین کا حصہ ہے کیوں کہ ترکی کو 1999 سے یورپی یونین کی ’رکنیت کا باقاعدہ امیدوار‘ کا درجہ حاصل ہے۔
لیکن پھر بھی میرکل اس ایشیائی مسلم ملک کے ساتھ ’مراعت یافتہ شراکت داری‘ کی خواہاں ہیں۔ ایک عرصے سے جرمنی کا جو موقف تھا، اب آہستہ آہستہ اس میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔
قیمت کا تعین ایردوآن کے ہاتھ میں
مطلق العنان صدر رجب طیب ایردوآن کی قیادت میں خود اعتماد ترکی معاشی اور سیاسی دونوں طرح کی قیمتوں کا تعین کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کی ایک جھلک گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں ترکی اور یونین کے مابین مذاکرات کے دوران بھی دیکھی گئی تھی۔
ترکی نے مہاجرین کو یورپ کی جانب سفر سے روکنے کے لیے نہ صرف یونین سے تین بلین یورو کی مدد حاصل کی بلکہ یورپی یونین کی رکنیت پر معطل شدہ مذاکرات بھی از سر نو شروع کیے۔
یورپ آنے والے تارکین وطن کی اکثریت کی منزل جرمنی ہے، اس لیے ترکی کو فراہم کرنے والی رقم کا بڑا حصہ بھی جرمنی ہی ادا کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میرکل جن فوائد کی توقع کر رہی ہیں، وہ حاصل بھی ہو پائیں گے یا نہیں؟
ترکی سراہے جانے کے قابل نہیں
میرکل کا فیصلہ امید پر مبنی ہے۔ اسی لیے انہوں نے جرمنی کی جانب سے ترکی کو فنی معاونت بھی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آفات سے نمٹنے والے جرمن ماہرین شام کی خانہ جنگی سے بھاگ کر ترکی میں پناہ حاصل کرنے والے شامیوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ممکن ہے کہ ترکی کو جلد ہی مزید مالی امداد کی ضرورت بھی پڑے۔ لیکن ترکی کو مزید مدد فراہم کرنے سے اور جرمن چانسلر کے مزید دوروں سے ترکی کے قد بُلند ہو گا۔ لیکن انقرہ اس کا مستحق نہیں ہے۔
ترک مدد محض عارضی حل
اس تمام صورت حال میں ترک سیاست کا آفتاب تو چمک اٹھا لیکن میرکل کے لیے اندھیروں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی جیسے ملک پر بھروسہ کرنے سے ممکن ہے کہ جز وقتی فائدہ ہو، لیکن طویل مدت میں یہ بیکار ہی ثابت ہو گا۔
جرمنی میں مہاجرین کے بحران کا تو ابھی صرف آغاز ہے۔ ابھی بھی ہزاروں لاکھوں لوگ امدد کے مستحق ہیں۔ میرکل نے تارکین وطن کے لیے کھلے دروازے کی پالیسی اختیار کی جو داد و تحسین کی مستحق ہے۔ لیکن ترکی کے ساتھ میرکل کی بات چیت اگرچہ حقیقت پسندانہ ہے، لیکن بددیانتی پر مبنی بھی ہے۔