1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی جماعت کی تشکیل کی خبریں

عبدالستار، اسلام آباد
1 مارچ 2024

پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کی خبریں گرم ہیں اور مبصرین اس ممکنہ نئی جماعت کے حوالے سے کئی پہلوؤں پر بحث کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4d5EP
Pakistan, Parlamentsgebäude, Parlament, Unterhaus, gebäude, außen, Islamabad
تصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

کہا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم اور نون لیگ کے اہم رہنما شاہد خاقان عباسی ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس کے اسباب و محرکات اور مقاصد کو کئی حلقوں میں زیر بحث لایا جارہا ہے۔ اردو روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے زور دیا کہ سیاست دان ایک دوسرے کو کرپٹ کرپٹ کہنا چھوڑیں۔

شاہد خاقان پارٹی بنانے کا سوچ رہے تھے

 اس حوالے سے جب ڈی ڈبلیو نے مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا سے دریافت کیا، تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جی ہاں شاہد خاقان نے جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ کافی عرصے سے ایسا سوچ رہے تھے اور کچھ عرصے پہلے لندن میں میاں نواز شریف صاحب سے ملاقات میں بھی انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔‘‘

اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق میاں نواز شریف نے انہیں کہا تھا کہ اگر وہ بنانا چاہتے ہیں تو بنا لیں۔

شاہد خاقان کا ن لیگ میں اسٹیٹس

جب اقبال ظفر جھگڑا سے دریافت کیا گیا کہ اس وقت شاہد خاقان عباسی کا پاکستان مسلم لیگ نون میں کیا اسٹیٹس ہے، تو انہوں نے جواب دیا، '' نہ ہی انہیں پارٹی سے نکالا گیا ہے اور نہ انہوں نے استعفیٰ دیا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب پارٹی بنانے کے بعد وہ خود مسلم لیگ نون سے استعفیٰ دے دیں گے۔‘‘

متضاد دعوے

تاہم پارٹی کی تشکیل کے حوالے سے متضاد باتیں سامنے آرہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” مجھے پکا پتا نہیں کہ شاہد صاحب کوئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے مجھ سے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ کچھ عرصے پہلے شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، سابق سینیٹر لشکری رئیسانی اور سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکر نے ملک کے مختلف علاقوں میں پاکستان کے مسائل کے حوالے سے سیمینارز  منعقد کرائے تھے، جس کے بعد یہ خبریں گرم ہو گئی تھیں کہ یہ چاروں کوئی نئی پارٹی بنانے جا رہے ہیں. ان چار ممتاز شخصیات کے اس گروپ کی ایک اہم شخصیت لشکری رئیسانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” جب ہم یہ سیمینار منعقد کر رہے تھے تو اس وقت پارٹی کے مسئلے پر تھوڑی بہت بات چیت ہوئی تھی لیکن کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوئی تھی۔‘‘

لشکری رئیسانی کے مطابق لوگوں نے اپنی اپنی رائے سیاسی جماعت کی تشکیل کے حوالے سے دی تھی۔ ” شاہد خاقان عباسی نے بھی ایسی جماعت کی تشکیل کے حوالے سے اپنی رائے دی تھی لیکن اس پر کبھی سنجیدہ بحث نہیں ہوئی۔‘‘

’پی ڈی ایم کا بیانیہ پاکستان میں آئین کی حکمرانی ہے‘

شاہد خاقان عباسی کے اختلافات

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ کیونکہ میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کو ایک سیاسی بادشاہت میں تبدیل کر دیا تھا، اسی وجہ سے ان میں اور شاہد خاقان عباسی میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ حبیب اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” جب شاہد خاقان عباسی نے یہ محسوس کیا کہ ان کی جماعت خاندانی بادشاہت میں تبدیل ہو رہی ہے تو انہوں نے اپنی راہیں جدا کر لیں کیونکہ انہیں یہ صاف نظر آرہا تھا کہ سیاسی قیادت پارٹی رہنماؤں یا کارکنان کے بجائے نواز شریف کے خاندان کے پاس ہی رہے گی۔‘‘

تاہم معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جب پارٹی کچھ رہنماؤں کو اچھے عہدے دیتی ہے، تو ان کا ذہن بدلنے لگتا ہے اور ان کی وفاداری پہ سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''غلام مصطفی جتوئی، غلام مصطفی کھر اور عبدالحفیظ پیرزادہ بھٹو صاحب کے قریبی لوگوں میں تھے۔ جب انہیں پارٹی نے عہدے دیے تو پارٹی کے لیے ان کی وفاداریاں مشکوک ہونے لگیں۔ ایسا ہی مسئلہ تقریبا شاہد خاقان عباسی یا چوہدری نثارکا ہے۔‘‘

Pakistan Karatschi Premierminister Mian Shahbaz
شاہد خاقان عباسی ن لیگ کے سینیئر رہنما ہیںتصویر: CM House

کیا نئی جماعت کی کامیابی کے امکان ہیں؟ 

سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت کی لہر ہے۔ ''اور جب تک عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے معاملات طے نہیں ہو جاتے اور ان کیمقبولیت کی لہر تھم نہیں جاتی، اس وقت تک کسی دوسری سیاسی جماعت کے لیے جگہ بننا مشکل ہے۔‘‘

کیا ناراض رہنما شامل ہو سکتے ہیں؟

کئی نون لیگی رہنما کافی عرصے سے پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت سے نالاں نظر آتے ہیں، جس میں سابق وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ سردار مہتاب عباسی اور ان کے بیٹے شمون عباسی بھی شامل ہیں۔ کیا یہ ناراض اراکین شاہد خاقان عباسی کی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ سردار مہتاب کا اپنے حلقے میں بہت اثر ورسوخ ہے۔ ''اور وہ ممکنہ طور پر شاہد خاقان عباسی میں کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘

ظفر اقبال ظفر جھگڑا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ '' سردار مہتاب عباسی اور کچھ ناراض ارکان شاہد خاقان عباسی کی پارٹی کو جوائن کر سکتے ہیں۔‘‘

تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ناراض اراکین جیسے کہ چوہدری نثار یا سردار مہتاب عباسی خود تھوڑے سے انا پسند ہیں۔ ''اس لیے ان کا شاہد خاقان عباسی سے شخصیت کا تنازعہ بن سکتا ہے۔ تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ جوائن کریں گے۔‘‘

 کیا کسی کی تھپکی ہے؟

 پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں طاقتور حلقوں کی مدد سے معرض وجود میں آتی ہیں اور بعض اوقات انہی کی معاونت سے پروان بھی چڑھتی ہیں۔ کیا شاہد خاقان عباسی کی جماعت کو بھی کسی طاقتور حلقے کی تھپکی ہے؟ سہیل وڑائچ کے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ '' شاہد خاقان عباسی خود اسٹیبلشمنٹ سے نالاں نظر اتے ہیں اور اس پہ تنقید کر رہے ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے؟

تاہم ظفر اقبال جھگڑا کا کہنا ہے کہ پاکستان ممکنات کی زمین ہے۔ '' یہاں پر کچھ بھی ہو سکتا ہے بظاہر پتہ نہیں چلتا کہ کس کو کس کی حمایت حاصل ہے لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ کسی نئی سیاسی جماعت کو ممکنہ طور پر طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل نہ ہو۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے شاہد خاقان سے کئی بار رابطہ کیا اور پیغامات بھی بھیجے لیکن ان کی جانب سے جواب نہیں آیا۔