نئی حکومت معاشی چیلنجیز: آگے کیا ہوگا؟
11 فروری 2024معیشت دانوں اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ گھمبھیر معاشی ومالی مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی حکومت کو سخت اقدامات کرنا پڑیں گے ورنہ ملک مزید معاشی تباہی کی طرف گامذن ہوگا۔
بڑھتے ہوئے قرضے
واضح رہے کہ مختلف حکومتوں نے سن 1980 کے بعد سے اب تک غریب عوام کو دی جانے والی کئی سبسڈیز کو ختم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ ملکی قرضے جو 70 کی دہائی میں 10 ارب ڈالرز بھی نہیں تھے، وہ اب 130 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی، دفاع کا بجٹ، خسارے میں چلنے والے قومی ادارے اور انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو پیسوں کی ادائیگی قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔
مالی نظم و ضبط سب سے بڑا چیلنج
معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔ انہوں نے ڈٰی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے اخراجات تقریباً 15 ٹریلین پاکستانی روپیہ ہے جبکہ حکومت کی آمدنی صرف دس ٹریلین پاکستانی روپے ہے۔ نئی حکومت کو تقریباً پانچ ٹریلین پاکستانی روپے کا گیپ فل کرنا پڑے گا، جس کے لیے مالی نظم وضبط بہت ضروری ہے۔‘‘
قرضے اور عوامی فلاح
پاکستان میں قرضوں کا حجم ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 1980 ء کی دہائی میں جب عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر نیو لبرل معاشی پالیسی شروع کی گئی تھی، تو کہا گیا تھا کہ سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کیا جائے گا اور ان اداروں پر خرچ ہونے والے پیسے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے گا۔ لیکن آج 80 فیصد کے قریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں، 44 فیصد بچوں کے مناسب خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے قد نہیں بڑھیں گے اور چھ کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔
شاہد محمود کے مطابق اس وقت قرضوں پر شرح سود بائیس فیصد ہے۔ '' عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کے نتیجے میں اب حکومت اسٹیٹ بینک سے براہ راست قرضہ نہیں لے سکتی جبکہ پرائیویٹ بینکوں اور عالمی اداروں سے قرضہ لینے کی صورت میں قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوگا، جس کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔‘‘
انڈرانوائسنگ کا چیلنج
فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے سابق سینیئر نائب صدر ریحان نسیم کا کہنا ہے کہ انڈر انوائسنگ کو روکنا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے ہاں اگر صنعت کار چوبیس ارب ڈالرز کی درآمد کرتا ہے، تو ظاہر محض چودہ ارب ڈالرز کرتا ہے۔ دس ارب ڈالرز پر حکومت کو ڈیوٹی نہیں ملتی، جس سے خزانے کو بہت نقصان ہوتا ہے۔‘‘
چند اشیاء کی ایکسپورٹ پر انحصار
ریحان نسیم کا کہنا ہے کہ ساری حکومتوں نے صرف چند اشیاء کی ایکسپورٹ پہ انحصار کیا، جس کی وجہ سے روزگار کے کافی مواقع پیدا نہیں ہو سکے۔ ''ہم صرف ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ پر توجہ دیتے ہیں۔ اگر تیس بلین ڈالرز کی مجموعی ایکسپورٹ ہوتی ہے، تو اس میں بائیس بلین ڈالرز ٹیسکٹائل کے ہوتے ہیں۔ ہمیں پھل، سبزیاں، آئی ٹی اور دوسری طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔‘‘
ٹیکس نیٹ بڑھانا
ریحان نسیم کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانا بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ ''پوری دنیا میں صرف ٹیکس ادا کرنے والا اور ٹیکس چور ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں فائلرز اور نان فائلرز کی بات ہوتی ہے۔ سرکاری ادارے خود ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ ٹیکس چوری کیا جائے تو نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ کس طرح وہ ایف بی آر میں اصلاحات کرتی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھاتی ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کی شرائط
ارشد محمود کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا بھی ایک ڑا چیلنج ہوگا۔ ''اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط جیسے کہ توانانی کی قیمتیں بڑھانے پر عمل نہیں کرے گی، تو آئی ایم ایف سے اگلی قسط ملنا مشکل ہو گا، ایسی صورت میں ملک مالی طور پر دیوالیہ ہو سکتا ہے۔‘‘
اشرافیہ مخالف معاشی اقدامات
معاشی امور کے ماہرڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون یا کوئی بھی حکومت برسر اقتدار آئے اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ کس طرح اشرافیہ کے خلاف اقدامات کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کو پیسے دیتے ہیں بعد میں یہ سیاسی جماعتیں انہی کی خدمت کرتی ہیں۔ تو کسی بھی نئی حکومت خصوصاً نون لیگ کے لیے سب سے بڑا یہ چیلنج ہوگا کہ وہ کس طرح 17 بلین ڈالرز سے زیادہ کی سبسڈی جو امرا کو دی جاتی ہے اس کو ختم کرے اور پانچ بلین ڈالرز سے زیادہ کی پر تعیش اشیا کی امپورٹ بند کرے۔‘‘
کیا کیا جا سکتا ہے؟
ارشد محمود کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار یا شوکت ترین کی بجائے ایک ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو معیشت کی سوچ بوجھ رکھتا ہو اور اصلاحات کر سکے۔
ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ 80 کی دہائی سے حکومتیں سرکاری ادارے بیچ رہی ہیں جس سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ ''پرائیویٹ ادارہ کبھی بھی بڑے پیمانے پہ روزگار پیدا نہیں کر سکتا۔ پوری دنیا میں سرکاری ادارے بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرتے ہیں۔ لہذا اسٹیل مل، پی آئی اے یا دوسرے اداروں کی نجکاری کی بجائے ان کی بحالی پہ کام کیا جانا چاہیے۔‘‘