نئی پاک بھارت جنگ کا حالیہ خطرہ ’امریکی مداخلت سے ٹلا‘
17 مارچ 2019اتوار سترہ مارچ کو خبر رساں ادارے روئٹرز کی اسلام آباد او نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے مابین سیاسی اور عسکری تناؤ اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ یہ دونوں ممالک ایک نئی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک دوسرے کو میزائل حملوں کی دھمکیاں بھی دے دی تھیں۔
لیکن اس خطرے کے بروقت ٹل جانے میں دیگر ممالک کے نمائندوں کے علاوہ اعلیٰ امریکی حکام نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا، جن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن بھی شامل تھے۔ روئٹرز نے اس کشیدہ صورت حال سے باخبر کم از کم پانچ انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ نئی دہلی نے اہداف کی تخصیص کیے بغیر کہہ دیا تھا کہ وہ پاکستان پر کم از کم چھ میزائل فائر کرے گا۔ اس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ بھارت کو ایسے ممکنہ حملوں کا جواب اپنے میزائلوں کے ’تین گنا‘ حملوں کے ساتھ دے گا۔
کشمیر دنیا کے خطرناک ترین تنازعات میں سے ایک
مغربی سفارت کاروں کے علاوہ واشنگٹن، اسلام آباد اور نئی دہلی میں حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے روئٹرز نے لکھا ہے کہ جس طرح فروری میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی نے دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین ایک نئی جنگ کا شدید خطرہ پیدا کر دیا تھا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا وہ متنازعہ اور منقسم خطہ، جس پر دونوں ہی ریاستیں اپنی اپنی ملکیت کے دعوے کرتی ہیں، آج بھی دنیا کے سب سے خطرناک علاقوں اور تنازعات میں سے ایک ہے۔
نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین یہ کشیدگی صرف دھمکیوں کے تبادلے تک ہی محدود نہیں رہی تھی۔ اس دوران پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کے خلاف فضائی کارروائیاں بھی کیں اور پاکستان نے بھارت کا ایک جنگی طیارہ بھی مار گرایا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس طیارے کے جس پائلٹ کو پاکستان نے اپنی سرزمین سے گرفتار کر لیا تھا، اسے بعد میں امریکا کے مبینہ دباؤ پر واپس بھار ت کے حوالے بھی کر دیا گیا تھا۔
روایتی ہتھیاروں کی دھمکیاں
روئٹرز نے لکھا ہے کہ ان دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین اس تناؤ کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ اس دوران جن میزائلوں کے دوطرفہ استعمال کی دھمکیاں دی گئی تھیں، وہ روایتی ہتھیاروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے۔ پھر بھی اس صورت حال پر واشنگٹن، بیجنگ اور لندن تک میں بہت تشویش پائی جانے لگی تھی۔
پاکستانی فضائیہ نے فروری کے اواخر میں جو بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا تھا، وہ دونوں ممالک کے مابین 1971ء کی جنگ کے بعد سے ایسا پہلا واقعہ تھا کہ ان میں سے کسی ایک ملک نے دوسرے کا کوئی جنگی جہاز مار گرایا تھا۔ اس جنگی طیارے کا بھارتی پائلٹ ابھینندن کمار اس لیے پکڑا گیا تھا کہ وہ اپنے ہوائی جہاز کی تباہی سے پہلے ہی اس سے بروقت نکل تو گیا تھا اور اپنے پیراشوٹ کے ذریعے وہ جہاں پر اترا تھا، وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ تھا۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کو فون پر دھمکی
روئٹرز کے مطابق جس روز پاکستانی حکام نے بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کیا تھا اور اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی اور ہتھکڑیوں والی تصویر بھارتی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اسی شام بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے ایک ’محفوظ‘ ٹیلی فون لائن پر پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ عاصم منیر سے بات بھی کی تھی۔
اس گفتگو کی تفصیلات سے آگاہ مغربی سفارتی اور بھارتی حکومتی ذرائع نے بتایا کہ اجیت دووال نے عاصم منیر کو بتا دیا تھا کہ بھارت اپنی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے تحت پاکستان میں ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں سے باز نہیں آئے گا، جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس دوران دووال نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کی یہ جنگ صرف ان عسکریت پسند گروپوں کے خلاف ہے، جو پاکستانی سرزمین سے بھارت پر حملوں کی وجہ بنتے ہیں۔
پاکستان کا جواب
چند مغربی سفارتی ذرائع کے علاوہ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کے خواہش مند ایک پاکستانی وزیر نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ اجیت دووال اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے مابین گفتگو میں نئی دہلی کی طرف سے دھمکی دی گئی تھی کہ بھارت کم ازکم بھی پاکستان میں چھ اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق اس پر آئی ایس آئی کے سربراہ عاصم منیر نے نہ صرف اجیت دووال کو ایسے کسی بھی حملے کی صورت میں بھرپور جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا، ’’اگر آپ ایک میزائل فائر کریں گے، تو ہم تین کریں گے۔ بھارت نے اگر کچھ بھی کیا، تو اس پر پاکستان کی طرف سے جواب تین گنا ہو گا۔‘‘
امریکی مداخلت
نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین اس تقریباﹰ جنگی صورت حال میں کمی کے لیے امریکی کوششوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اجیت دووال، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔
اس تناؤ میں کمی کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن بھی بہت سرگرم رہے تھے، جو نئی دہلی اور اسلام آباد میں اعلیٰ شخصیات کے ساتھ بار بار رابطے کر رہے تھے۔ اسی دوران پاکستان کے ایک وزیر کے بقول اس کھچاؤ میں کمی کے لیے چین اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے اپنے طور پر بھرپور کوششیں کی تھیں۔
م م / ع ب / روئٹرز