یا ہو سکتا ہے کہ میری نفسیات کے پیچھے یہ بھی ہو کہ انہی غموں، فکروں اور مسائل سے بھاگ کر تو جرمنی آئے تھے۔ شاید لاشعوری طور پر میرے ذہن میں تھا کہ ان مسائل سے جان چھڑانی ہے۔
ایسی ہی سوچ کئی برس پہلے ایک مرتبہ بس کے ساتھ لٹکے ہوئے آئی تھی۔ نوشہرہ ورکاں سے گوجرانوالہ جانا تھا، پیسے کم تھے تو بطور اسٹوڈنٹ یہی سوچا کہ بس سے لٹک کر جاتے ہیں، دو چار روپے کرایے میں گوجرانوالہ پہنچ جاؤں گا۔ اُس وقت ابھی ایک روز پہلے ہی میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ بلاول بھٹو تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی پڑھا تھا کہ بلاول مستقبل کے لیڈر ہیں اور ایک دن ملک کی قیادت کریں گے۔
ہم روایتی طور پرمسلم لیگ نون کے ووٹر تھے تو اس وقت مسائل کی جڑ ہم پیپلز پارٹی کو ہی سمجھتے تھے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ تعصب بہت زیادہ تھا۔ لیکن اس دن بس سے لٹکے لٹکے، جو سوچ آئی تھی، وہ یہ تھی کہ بلاول کو کیسے پتا چلے گا میرے مسائل کیا ہیں، ایک غریب طالب علم کے مسائل کیا ہیں، گرمیوں میں صبح سویرے ناشتے کے بغیر گاؤں سے نکلنا اور تپتی دوپہر میں بسوں کے اڈوں پر کھڑے ہونا، پینتالیس سینٹی گریڈ میں تارکول کی سڑکوں پر گردو غبار اور دھواں پھانکنا اور ہر آتی جاتی بس یا ٹیوٹے کو ہاتھ دے کر روکنا کس قدر اذیت ناک ہے؟
اس وقت سوچ محدود تھی، ٹھنڈے پانی کے حصول، ایک آئس کریم کھانے، لکھنے کے لیے ایک ڈائری خریدنے اور اس کے لیے پیسے جوڑنے تک ہی محدود تھی۔ بس کی چھت پر بیٹھے بیٹھے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ امیر لوگ، جو اسمبلیوں میں جاتے ہیں، جو ہماری قسمت کے فیصلے کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے دکھوں کا مداوا کرنا ہے، یہ میرے مسائل اور میرے غموں کی شدت کو کیسے سمجھ پائیں گے؟
سوچیں محدود تھیں، میں کافی دیر سوچتا رہا تھا کہ اچھا پین خریدنے کی خوشی، کتابوں کے لیے پیسے، تھک کے گھر آنے اور پھر پڑھائی نہ کر سکنے کی سکت کا مسئلہ میرے مستقبل کے لیڈر بلاول کو کیسے سمجھ آئے گا؟
جو بندہ اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھا ہو، جس کی کتابیں نوکر بازار سے خرید کر لاتے ہوں، جو اے سی والے گھر سے نکلے، اے اسی والی گاڑی میں سوار ہو، اے سی والے اسکول میں جاتا ہو، اسے ایک پرائمری اسکول سے نکلنے والے، بس یا ٹیوٹے پر دھکے کھاتے ہوئے طالب علم کے مسائل کیسے سمجھ آئیں گے؟
آج میں شکر کرتا ہوں کہ اچھے وقت پر پاکستان سے نکل آیا ورنہ آج تک کسی بس سے لٹک کر سفر کر رہا ہوتا۔ یہ سوچیں ہی تھیں، جنہوں نے ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ملک کے حالات ہی تھے، جن کے وجہ سے میرے جیسا بندہ اپنے ماں باپ، خاندان اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر دور کسی دیس میں جا بستا ہے۔
میں اب یہ اقرار جرم کرتا ہوں کہ مجھے اب پاکستان میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی کے مسئلے سے کوئی خاص ہمدردی نہیں رہی۔ میں شرمندہ بھی ہوں کہ یہ خود غرضی ہے کہ آپ کسی کے غم کو اپنا غم نہ سمجھیں۔ یا کم از کم ایک دیہات کے رہنے والے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ساتھیوں کے غم درد کو محسوس ہی نہ کر سکے۔
ستمبر 2020 میں پاکستان میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تھی، جس میں محترمہ مریم نواز اور جناب بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے تھے۔
تب میں نے سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ دونوں ہی اچھے لیڈر ثابت ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ دونوں ہی پاکستانی جمہوریت کو دوام بخشیں، پاکستان کی روایتی سیاست کو بدل دیں، صحرا میں بارش کا ایک قطرہ ثابت ہوں، مرتے ہوئے پرندوں کے لیے ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوں۔
لیکن یہ میرا ایک وہم تھا، ایک خیال تھا، ایک خواب تھا، جو چار برسوں میں ہی ٹوٹ گیا ہے۔ ملک میں نئی سیاست کے نمائندہ یہ دونوں سیاستدان بھی روایتی خاندانی سیاست کے ہی امین نکلے ہیں، صرف اپنے ہی سیاسی قبیلے کے لوگوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں، پھر سے ملک کے وسیع تر مفاد میں اسٹیبلشمنٹ کے ہم قدم بن چکے ہیں، فقط یہ دیکھ رہے ہیں کہ بارش کے بعد کس سڑک پر کتنا پانی کھڑا ہے؟
پہلے سے ہی بلکتے عوام پر یکم جولائی کو نئے ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں۔
عوام کے لیے بجلی کے یونٹ مہنگے ہوئے ہیں لیکن سیاستدانوں، اعلی فوجی افسران اور بیوروکریٹس کی بجلی مفت ہے۔ گیس، گاڑی، پٹرول، گھر، سفر اور علاج عوام کے لیے مہنگے سے مہنگا ہوتے جا رہے ہیں اور یہی بنیادی سہولیات حکمرانوں، فوجی افسران، عدلیہ کے اعلیٰ ججوں اور بیوروکریٹس کے لیے مفت ہیں۔ میں سوچتا ہوں یہ کیسا ملک ہے، جہاں کوٹھیوں اور محلات والوں کو رعایتیں دی جا رہی ہیں اور جھونپڑیوں والوں پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔
میری سوچ وہی پرانی سوچ ہے، ہینگر سے لٹکے پرانے کوٹ کی طرح وہیں معلق ہے، آج نئی سیاست کے نمائندے بلاول صاحب اور محترمہ مریم نواز کو دیکھ کر وہی کئی برس پرانی سوچ دوبارہ ابھرتی ہے۔
چار برس پہلے مریم نواز خصوصی طور پر لندن میں اپنے بچوں کی گریجویشن تقریب میں شرکت کے لیے گئی تھیں۔ وہ اچھے خوبصورت تھری پیس ولایتی سوٹ میں تھے، ثروت آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔ رب کی تقسیم ہے، انسان کو خوش ہونا چاہیے، ہو سکتا ہے آج سے بیس برس بعد وہ بھی سیاست میں قدم رکھیں اور اس ملک کی جمہوریت کو مزید مضبوط بنائیں۔
لیکن سوال وہی پندرہ برس پرانے والا ہے کہ یہ اعلیٰ طقبے سے تعلق رکھنے والے حکمران ایک غریب طالب علم کے مسائل کو کیسے سمجھیں گے؟ ہماری تمام تر جمہوریت ملک کے تقریباً چار سو خاندانوں سے کیوں جُڑ کر رہ گئی ہے؟
آج جرمنی میں بیٹھا میں سوچ رہا ہوں کہ شاید کوئی امتیاز احمد آج بھی نوشہرہ ورکاں کی بس سے لٹک کر گوجرانوالہ گیا ہو اور یہ سوچ رہا ہو کہ کیوں بسوں پر لٹکنے والے بچے پارلیمان تک نہیں پہنچ پاتے؟ کیوں ایک کسان، ایک موچی، ایک حجام کا بیٹا پارلیمان میں نہیں پہنچ پاتا۔ کیوں ہماری قسمت کے فیصلے، ان بڑے لوگوں کے بیرون ملک پڑھنے والے بچوں نے ہی کرنے ہیں؟
بیرون ملک تعلیم بری چیز نہیں لیکن بہتر تعلیم کی سہولتیں چوبیس کروڑ عوام کے بچوں کے لیے کیوں نہیں ہیں؟ یہ جمہوریت دن رات محنت کرنے والے بچوں کے لیے کیوں نہیں ہے؟ جو بچے اسٹال لگا کر، محنت مزدوری کر کے، اتنا پڑھ لکھ رہے ہیں، وہ میٹرک پاس ایم پی ایز اور ایم این ایز کے سامنے کیوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونے پر مجبور ہیں؟
یہ بڑے بڑے ٹھیکے، رقبوں کی تقسیم، کاروبار اور وسائل کی بندر بانٹ فوج اور جاگیردار سیاستدانوں کے ہی درمیان کیوں ہو رہی ہے؟ ٹیکس غریبوں پر ہی کیوں؟ یہ پاکستان کی اشرافیہ کب تک اپنی جنگ میں غریب عوام کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے رہیں گے، کب تک؟
پتا نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ پاکستان میں، جو غریب طلبہ آج بھی ایسا سوچ رہے ہیں، شاید وہ بھی چند برس بعد کسی یورپی ملک میں بیٹھے، خود غرضی کا لبادہ اوڑھے، یہی سوچ رہے ہوں کہ شکر ہے پاکستان سے نکل آئے تھے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔