نائن الیون حملہ آوروں کا شامی نژاد ’جرمن معاون‘ پکڑا گیا
19 اپریل 2018برسوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں قامشلی سے جمعرات انیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسد حکومت اور اس کے اتحادی ملیشیا گروپوں کے خلاف فعال کرد فورسز کے ایک کمانڈر نے بتایا کہ اس جرمن عسکریت پسند کا نام محمد حیدر زمار ہے اور وہ ان دہشت گردوں کا معتمد ساتھی تھا، جو 2001ء میں گیارہ ستمبر کے روز امریکا میں متعدد مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کے منصوبہ ساز تھے۔
نائن الیون: سعودی حکومت کی مقدمہ ختم کرنے کی اپیل مسترد
امریکا کی عالمی طاقت کے زوال میں القاعدہ کا کردار
کرد فورسز کے ایک سینیئر کمانڈر نے اے ایف پی کو صرف اتنا بتایا، ’’زمار کو کرد سکیورٹی فورسز نے شمالی شام سے گرفتار کیا اور اس وقت اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ محمد حیدر زمار کی عمر اس وقت 55 برس کے قریب ہے اور اس پر یہ الزام بھی ہے کہ امریکا میں نیو یارک سمیت متعدد مقامات پر کیے گئے نائن الیون حملوں کے لیے استعمال ہونے والے مسافر طیاروں کے ہائی جیکروں میں سے چند کو اسی نے بھرتی کیا تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ زمار کو دسمبر 2001ء میں مراکش سے ایک ایسے آپریشن کے دوران حراست میں لیا گیا تھا، جس میں امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ بھی شامل تھے۔ تب صرف دو ہفتے بعد ہی اسے شامی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
پھر 2007ء میں ایک شامی عدالت نے اسے 12 سال قید کی سزا سنا دی تھی کیونکہ اس پر الزام تھا کہ وہ اخوان المسلمون کا رکن تھا۔ تب یہ ایک ایسا الزام تھا، جس کے ثابت ہو جانے پر اسے سزائے موت بھی سنائی جا سکتی تھی۔
حیدر زمار کو سزائے قید سنائے جانے کے قریب چار سال بعد شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی، جس دوران بہت سے سخت گیر اسلام پسند قیدیوں کو یا تو رہا کر دیا گیا تھا یا وہ جیلوں سے فرار ہو گئے تھے۔ بعد میں ان عسکریت پسندوں کی اکثریت جہادیوں کے طور پر شامی خانہ جنگی میں شامل ہو گئی تھی۔کابل میں ’نائن الیون ارب پتیوں‘ کے محلات
دہشت گردی کے خلاف اتفاق اور متحد رہنا ضروری ہے، اوباما
شامی جانہ جنگی کے دوران دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے جہادیوں میں سے بہت سے النصرہ فرنٹ میں شامل ہو گئے تھے، جو شروع میں تو شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ تھی مگر جس نے بعد میں القاعدہ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔
شام میں سرگرم سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف اسد حکومت کا مخالف اور عرب اور کرد جنگجوؤں پر مشتمل ایک ایسا عسکری اتحاد ہے، جو حالیہ مہینوں میں شام کے مختلف علاقوں سے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے کئی غیر ملکی جہادیوں کو حراست میں لے چکا ہے۔ یہ گرفتاریاں زیادہ تر شمالی شامی شہر الرقہ پر ایس ڈی ایف کے ملیشیا ارکان کے قبضے کے بعد عمل میں آئی تھیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
امریکا میں اسلام مخالف جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ
’9/11 پر دنیا بھر کے مسلمان خوشی سے دیوانے ہو گئے‘، ٹرمپ
شامی کرد ملیشیا کے ایک کمانڈر نے بدھ اٹھارہ اپریل کو رات گئے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں زمار کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ آیا حیدر زمار شامی تنازعے میں کسی شدت پسند گروپ کے رکن کے طور پر سرگرمی سے عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتا رہا تھا۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق وہ شمالی شام سے زمار کی گرفتاری کی خبروں کی تصدیق تو نہیں کر سکتا تاہم اس سلسلے میں ملنے والی اطلاعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
م م / ا ب ا / اے ایف پی