نابینا افراد کے لیے الیکٹرانک ٹوپی، پاکستانی طلبہ کی ایجاد
8 مئی 2015الیکٹرانک کیپ فار بلائینڈز (Electronic Cap for Blinds)کے نام سے منسوب اس ٹوپی کے پہننے کے بعد نابینا افراد عام لوگوں کی طرح چھڑی کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کر سکتے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہٴ الیکٹرانکس کے چار طالب علموں کے ایک گروپ نے اس الیکٹرانک کیپ کو محض سات ہزار روپے کی لاگت سے دو ماہ کی مدت میں تیار کیا ہے۔
اپنی اس ایجاد کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے گروپ کے ایک رکن محمد جنید کا کہنا تھا کہ یہ پراجیکٹ نابینا افراد کو چلنے پھرنے میں پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر وضع کیا گیا ہے:’’اس الیکٹرانک ٹوپی کی مدد سے آنکھوں کی روشنی سے محروم افراد بھی دوسرے لوگوں کی طرح روزمرہ کے کام کر سکتے ہیں۔ اب ان کے لیے بازار یا مسجد جانا بہت آسان ہو جائے گا۔‘‘
سوال یہ ہے کہ یہ ڈیوائس کام کس طرح سے کرتی ہے۔ اس بارے میں جنید کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت ہی سادہ سی بیٹری سے چلنے والی مشین ہے۔ ایک ٹوپی میں انتہائی مہارت کے ساتھ چاروں اطراف کچھ سینسرز لگائے گئے ہیں جو کہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رکاوٹ کے بہت قریب آنے کی صورت میں یہ الیکٹرانک ٹوپی یا ڈیوائس پہننے والے کو ایک آواز یا پھر وائبریشن کے ذریعے خبردار کرتی ہے۔ یہ آواز یا وائبریشن ٹوپی کے صرف اُس رُخ پر ہوتی ہے، جس رُخ سے رکاوٹ یا خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
طالب علموں کے اس پراجیکٹ کے سپروائزر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف ہیں۔ اُنہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان طلبہ کی ایک بہت ہی اچھی کاوش ہے اور مستقبل میں اس سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس الیکٹرانک کیپ کو مستقبل میں مزید بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے، اس بارے میں ڈاکٹر آصف نے بتایا:’’یہ ایک اچھا پراجیکٹ تھا، اس لیے اب اس کے دوسرے مرحلے پر بھی کام کیا جائے گا، جس میں اس کو گوگل میپ کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تاکہ یہ اور بہتر طور پر کام کرے، یہ ایک اچھا اور قابل ستائش آغاز ہے۔‘‘
ڈاکٹر آصف کہتے ہیں کہ پاکستان میں اکیڈیمیا (Academia) یعنی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے درمیان بہت زیادہ گیپ ہے۔ بدقسمتی سے نئی چیزیں ایجاد ہو جاتی ہیں لیکن ان کو صنعتی طور پر متعارف نہیں کرایا جاتا، جس کی وجہ سے اچھی اچھی ایجادات محض تجربات اور کتابوں تک محدود رہ جاتی ہیں۔ لیکن ڈاکٹر آصف طالب علموں کی تیار کردہ نابینا افراد کو راستہ دکھانے والی اس ڈیوائس کے حوالے سے کافی پر امید ہیں کہ جلد ہی اس سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھایا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET) پشاور کے کچھ اساتذہ اور طالب علموں نے بھی اس ڈیوائس میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ اس میں جدید سافٹ ویئر ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے کوشاں ہیں، جو کہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔
الیکٹرانک کیپ کو مزید جدت کی طرف لے جانے والے UET پشاور کے طالب علم مدثرکہتے ہیں کہ اگرچہ اس ٹوپی میں لگے سینسرز کی بدولت رکاوٹوں سے بچنے کا نظام موجود ہے اور گوگل میپ کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کو مزید بہتر بنانے کے لیے وہ اس میں فیس ریکگنیشن (Face Recognition) کا سسٹم بھی متعارف کرانا چاہتے ہیں، جس کی مدد سے قریب آنے والے کسی بھی فرد کی نشاندہی ممکن ہو سکے گی اور آواز کے ذریعے نابینا فرد اور اس کا نام بتا دیا جائے گا۔
اس نظام کے لیے اس الیکٹرانک کیپ فار بلائنڈز میں ایک ڈیٹا بیس بنایا جائے گا، جس میں پہننے والے فرد کے تمام جاننے والوں کی تصاویر ہوں گی۔ ڈاکٹر محمد آصف کے بقول اس ڈیوائس کی آخری اور حتمی شکل بہت کارآمد ہو گی اور طالب علموں کی اس ایجاد کو نابینا افراد کی بینائی کہنا غلط نہیں ہو گا۔