1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناقابل یقین 'زندگی' دریافت

3 دسمبر 2010

حیاتیاتی سائتنسدانوں نے سب سے خطرناک زہریلے عنصر سنکھیا پر نشو نما پانے والے ایک بیکٹریا کی دریافت کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ اس بیکٹریا کی دریافت امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ایک جھیل میں کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/QOr1
فیلیسا وولف سیمون مون لیک کے کنارےتصویر: picture-alliance/dpa

جس نئے بیکٹریا کو دریافت کیا گیا ہے وہ اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد حیاتیاتی مادہ ہے کیونکہ سنکھیا ایک ایسا زہر تصور کیا جاتا ہے جو جان لیوا تصور ہوتا ہے۔ اس پر حیات کی افزائش کو سائنسدانوں نے ناقابل یقین ہونے کے ساتھ حیران کن بھی قرار دیا ہے۔

امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے سائنسدانوں نے اس حیرت ناک بیکٹریا کے بارے میں تفصیلات جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بیکٹیریا کی آرسینک یا سنکھیا پر افزائش اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ زمین کے علاوہ بھی کسی اور کہکشاں پر زندگی موجود ہو سکتی ہے۔ اس زہریلی مادے پر حیات پرورش پانے کا یہ پہلا واقع ہے جس سے محققین کو ادراک حاصل ہوا ہے۔ اس بیکٹیریا کے ڈی این اے میں بھی فاسفورس کی جگہ آرسینک کی دریافت مزید حیران کن بات ہے۔

NASA Bakterien Arsen
سنکھیے زہر کا بیکٹیریا، مائکروسکوپ کی نگاہ میںتصویر: picture-alliance/dpa

ریسرچر کا کہنا ہے کہ سنکھیا پر افزائش پانے والا یہ بیکٹریا جو اپنی حیات کے لیے اس زہر کو استعمال کرتا ہے۔ اس بیکٹیریا کے بارے میں یہ تفصیلات معتبر سائنسی تحقیقی جریدے سائنس میں جاری کی گئی ہیں۔ تحقیق کے مطابق اس بیکٹریا کے ڈی این اے میں فاسفورس کی موجود گی کا بھی پتہ چلا ہے۔ ریسرچ نے پہلے ہی معلوم کر لیا ہے کہ زندگی کے لیے چھ عناصر کا ہونا لازمی ہے اور وہ ہیں نائٹروجن، آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، سلفر اور فاسفورس۔

کیلیفورنیا کی جھیل سے ملنے والے بیکٹریا پر لیبارٹری میں ہونے والا تحقیقی عمل جاری کردیا گیا ہے۔ لیبارٹری میں ریڈیو ایکٹیو آرسینک استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھی یہ بیکٹیریا آرسینک پر افزائشی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ناسا کے ایک سینیئر سائنسدان میری وائے ٹیک کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی حیران کن ہے اور یہ ماورائے حیاتیات ہے۔ اس کو ایسٹرو بائیولوجی کہا جاسکتا ہے۔ اس نئی تحقیق کو بائیالوجی کی ایک نئی شاخ ایسٹرو بیالوجی کی ریسرچ میں بریک تھرو خیال کیا جا رہا ہے۔ امریکی تحقیقی ادارے ناسا کی ایک اور سائنسدان فیلیسا وولف سیمون کا کہنا ہے کہ اس بیکٹیریا کی دریافت سے ایک بند دروازے کو کھول دیا گیا ہے اور کائنات میں کہیں نہ کہیں حیات کے ہونے کا اب یقین کیا جاسکتا ہے۔

Hubble zeigt Carina Nebula Flash-Galerie
خلا کے انتہائیف دورے والے مقام کی تصویرتصویر: AP

ناسا کے محققین نے اس نئے بیکٹیریا کو فی الحال GFAJ-1 کا نام دیا ہے۔ اس کو پروٹو بیکٹیریا کے خاندان میں رکھا گیا ہے۔ اس کی دریافت کیلیفورنیا کے سیرا نویڈا پہاڑ کی ترائیوں میں واقع مون لیک سے ہوئی ہے۔ اس دریافت سے بھی معلوم ہوا ہے کہ زہریلی مادے بھی زمین یا کسی باہر کی خلائی دنیا میں حیات کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زمین پر بھی کیمیاوی اور انتہائی مضر اجزا کی صفائی والے پانی سے حیات کی افزائش کا نیا باب کھلا ہے۔ ریسرچر کے مطابق اس عمل سے اگلے سالوں میں ایسے بیکٹریا کی افزائش ہو سکے گی جو زہریلے مواد کے خاتمے کا موجب بن سکے گا۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: افسراعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں