نشے کی حد تک انٹرنیٹ کے عادی نوجوان ڈپریشن کا شکار
9 اگست 2010آج کے دور میں بھلا انٹرنیٹ اور موبائل ٹیلی فون کون استعمال نہیں کرنا چاہے گا؟ انٹرنیٹ تو نوجونوں میں اتنا مقبول ہے کہ ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ریاستوں تک میں نوجوان نسل کو ’نیٹ جنریشن‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہے۔ طبی ماہرین کسی بھی صارف کے نامناسب حد تک زیادہ آن لائن رہنے کو، جسے متعلقہ فرد خود بھی کنڑول نہ کر سکے، انٹرنیٹ کے پیتھالوجیکل استعمال کا نام دیتے ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں ماہرین نے ابھی حال ہی میں ایک سروے مکمل کیا، جس میں انٹرنیٹ کے بیماری کی حد تک زیادہ استعمال اور بعد میں پیدا ہونے والے ذہنی صحت کے مسائل کا طویل عرصے تک تفصیلی مشاہدہ کیا گیا۔ اس مطالعے میں حصہ لینے والے ایک ہزار سے زائد چینی ٹین ایجرز کی اوسط عمر پندرہ برس تھی۔
اس مطالعے سے ثابت یہ ہوا کہ نشے کی حد تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والے نوجوانوں میں، مناسب حد تک لمبے عرصے کے لئے آن لائن رہنے والے تیرہ سے انیس برس تک کی عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا شکار ہو جانے کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ہر وقت آن لائن رہنے کے خواہش مند نوجوانوں کو اکثر ان کے سماجی اور خاندانی رشتوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے افراد کی صحت بھی خراب رہنے لگتی ہے۔ ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے اور ان میں کئی دیگر نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہونے لگتے ہیں۔
اس سروے کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ ایسے نوجوان بالعموم بےچین رہنے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 1041 نوجوانوں کو ایسے سوالنامے بھی پر کرنے کے لئے دئے گئے، جن میں کسی عمل کی نشے کی حد تک عادت سے متعلق مختلف پہلوؤں سے سوالات بھی پوچھے گئے تھے۔
بہت طویل عرصے تک جاری رہنے والے اس مطالعے کے شروع میں 62 نوجوان ایسے تھے جنہیں انٹرنیٹ کے بہت زیادہ استعمال کی عادت تھی۔ لیکن اس عادت کو بیماری کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ نو ماہ بعد جب اس سروے کے شرکاء کا ڈپریشن اور نفسیاتی بےچینی کے آثار کے تعین کے لئے دوبارہ معائنہ کیا گیا توآٹھ نوجوانوں میں بیماری کی حد تک زیادہ نفسیاتی بےچینی پائی گئی۔ اس کے علاوہ 87 یا 8.5 فیصد نوجوان ایسے تھے، جو مختلف وقفوں سے بار بار ڈپریشن کا شکار ہو چکے تھے۔
وہ نوجوان جو مناسب حد تک انٹرنیٹ استعمال کرتے تھے، ان میں ایسے ذہنی اور نفسیاتی حالات کا شکار ہو جانے کا امکان کئی گنا کم رہا۔ یہ مطالعہ آسٹریلیا میں سڈنی کے سکول آف میڈیسن اور چین میں گُوانگ ژُو یونیورسٹی کے اشتراک سے مکمل کیا گیا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک