1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نصف درجن سے زائد مساجد بند، کئی امام بے دخل

8 جون 2018

آسٹریائی حکومت نے اپنے ایک فیصلے کے تحت ایسے اماموں کو ملک بدر کرنے فیصلہ کیا ہے، جنہیں بیرونی مالی امداد حاصل تھی۔ ویانا حکومت نے نصف درجن سے زائد مساجد بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2z8Aa
Bonn Bad Godesberg - Arabische Nachbarschaft
تصویر: DW/L. Tarek

آسٹریا کے چانسلر سیباستان کُرس نے جمعہ آٹھ جون کو اعلان کیا ہے کہ اُن کے ملک میں ایسے کئی اماموں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا ہے، جنہیں باقاعدگی سے غیر ممالک سے مالی معاونت حاصل رہی ہے۔ اسی طرح اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی سات مساجد کی تالہ بندی کر دی گئی ہے، جہاں سے ملکی سلامتی کو خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

چانسلر کرس کے مطابق یہ کریک ڈاؤن مذہب اسلام کے خلاف نہیں بلکہ بعض افراد کی جانب سے اسلام کے سایے میں جاری سیاسی ایجنڈے کے خلاف کیا گیا ہے۔ آسٹریائی چانسلر کے مطابق دارالحکومت ویانا میں ایک ایسی مسجد کو بند کیا گیا ہے، جو ترک قوم پرستوں کے زیر انتظام تھی۔

ویانا حکومت نے مسلمانوں کے ایک مسلمان مذہبی گروپ ’ عرب کمیونٹی‘ کو بھی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مذہبی گروپ کم از کم چھ مساجد کا انتظام و انصرام رکھتا تھا۔ اب تک دو آئمہ کے معاہدے منسوخ کر دیے گئے اور پانچ دیگر کے معاہدوں کی تجدید نہیں کی گئی ہے۔

Slowenien Grenzdorf Rigonce
آسٹریا کے ایک مسلمان مذہبی گروپ ’ عرب کمیونٹی‘ گروپ کم از کم چھ مساجد کا انتظام و انصرام رکھتا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Bandic

دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ ہیربرٹ کیکل نے کہا ہے کہ مساجد کو بند کرنے اور اماموں کی ملک بدری کے اقدامات سن 2015 کے ایک قانون کے تحت اٹھائے ہیں، جس میں مذہبی حلقوں کو غیر ملکی فنڈنگ کے حصول کی ممانعت کی ہے۔ کیکل کے مطابق چالیس اماموں کی تعیناتی کے معاملے کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

چانسلر سیباستیان کرس کے مطابق یہ فیصلہ مذہبی معاملات کے نگران ادارے کی کئی ہفتوں سے جاری تفتیشی عمل کے بعد کیا گیا ہے۔ آسٹریائی ادارے نے یہ تفتیش رواں برس اُن تصاویر کی اشاعت کے بعد شروع تھی جن میں ترکی کی حمایت یافتہ مساجد میں بچے پہلی عالمی جنگ کی گیلی پولی لڑائی کو پیش کرنے کے دوران مرنے اور مارنے کے مناظر کی اداکاری میں مصروف دکھائے گئے تھے۔

جزیرہ نما گیلی پولی کی لڑائی اُس وقت کی سلطنتِ عثمانیہ کی فوج اور اتحادی فوجوں کے درمیان سترہ فروری سن 1915 سے نو جنوری سن 1916 تک جاری رہی تھی۔ اس لڑائی میں ترک فوج کو فتح حاصل ہوئی تھی۔

ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ اماموں کی ملک بدری اور مساجد کی بندش پر ترک حکومت سخت ردعمل ظاہر کر سکتی ہے۔ ایردوآن کے سابقہ صدارتی الیکشن کے دوران انتخابی مہم کی اجازت نہ دینے پر ترکی اور آسٹریا کے تعلقات میں گراوٹ پیدا ہوئی تھی۔