نظریہ اضافیت خطرے میں، روشنی سے تیز رفتار ذرات
24 ستمبر 2011سرن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غالباً ایٹم کے ذیلی ذرے نیوٹرینو روشنی سے تیز رفتار سفر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ تین برس سے جاری تجربات کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا سے داغے گئے ذیلی ایٹمی ذرات 450 میل دور موجود اطالوی تجربہ گاہ گران ساسو میں روشنی کے مقابلے میں یہ فاصلہ ساٹھ نینو سیکنڈز جلد طے کرتے ہوئے پائے گئے۔ تاہم ان تجربات کی تصدیق ابھی نہیں ہو پائی ہے۔
جمعے کے روز سرن سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر اوپرا نامی اس تجربے کے نتائج درست ہیں اور اگر واقعی ذیلی ایٹمی ذرے نیوٹرینو روشنی سے زائد رفتار میں سفر کرتے ہیں، تو پھر ایک طرف تو آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت پر ازسر نو غور کی ضرورت ہو گی اور دوسری جانب ٹائم ٹریول یا وقت کی رفتار سے سفر بھی ممکن ہو جائےگا۔
مانچسٹر یونیورسٹی سے وابستہ ذراتی طبیعات کے پروفیسر جیف فورشا کے مطابق، ‘‘تجربات کی تصدیق ہو گئی، تو کہا جا سکے گا کہ کم از کم نظریاتی طور پر ہم پیغامات ماضی میں بھیج سکیں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ‘اگر یہ تجربات درست ہیں، تو پھر وقت کی رفتار سے سفر بھی ممکن ہے۔ مگر ظاہر ہے فی الحال ہم کوئی ٹائم مشین نہیں بنا سکتے۔‘
مشہور ماہر فلکیات مارٹن ریز نے سرن کے اس بیان کے ردعمل میں کہا، ‘غیر معمولی دعوے کے لیے شواہد کا غیر معمولی ہونا بھی ضروری ہے اور یہ ایک غیر معمولی دعویٰ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یورپی تجربہ گاہ سرن کائنات کی تخلیق کے رموز پر بھی تحقیق میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں لارج ہاڈرون کولائڈر نامی سرنگ میں نیوٹرینو نامی ذیلی جوہری ذرات کی رفتار مسلسل تجربات میں روشنی کی رفتار سے زائد جانچی گئی ہے۔
جدید طبعیات کے بانی البرٹ آئن اسٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت میں کہا تھا کہ روشنی کائنات میں سب سے تیز رفتار سفر کرتی ہے۔ سن 1906ء میں دیے گئے خصوصی نظریہ اضافیت میں کہا گیا تھا کہ کائنات میں روشنی وہ واحد شے ہے، جس کی رفتار مستقل ہے اور کوئی اور کائناتی شے اس سے تیز تر نہیں۔
نیوٹرینو نامی ذیلی ایٹمی ذرات پر تحقیق میں مصروف امریکی سائنسدان جینی تھوماس کے مطابق اگر جانچا گیا ساٹھ نینو سیکنڈ کا یہ فرق درست ہے، تو اس انتہائی مختصر وقتی فرق کے نتیجے میں طبعیات کی دنیا میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ عاطف توقیر
ادارت عابد حسین