1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شريف کی حوالگی کی درخواست: ماہرين کيا کہتے ہيں؟

عبدالستار، اسلام آباد
22 اکتوبر 2020

بيشتر وزراء حکومت کی طرف سے نواز شریف کی حوالگی کی درخواست پر شادیانے بجا رہے ہیں اور پر امید ہیں کہ جلد ہی سابق وزیر اعظم دوبارہ جیل میں ہوں گے۔ لیکن سياسی تجزیہ کار اس خوش امیدی کو حکومت کی 'خوش فہمی‘ قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3kITu
Archivbild - Nawaz Sharif, ehemaliger Premierminister
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary

اسلام آباد حکومت نے ایک خط کے ذریعے برطانیہ سے پاکستان مسلم ليگ ن کے رہنما اور سابق وزير اعظم کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے بدھ کو بتايا کہ اس ضمن ميں پاکستان اور برطانيہ کی حکومتیں نواز شریف کی واپسی کے طریقہ کار پر بات کر رہی ہیں۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے تو اس حوالے سے پندرہ جنوری کی تاریخ بھی دے دی ہے۔ شہزاد اکبر نے فواد چوہدری پر یہ کہہ کر سبقت لینے کی کوشش کی کہ نواز شریف کی پاکستان کو حوالگی شايد اس سے بھی پہلے ہو جائے۔

نواز شريف کی حوالگی: ايک مشکل اور پيچيدہ عمل

البتہ برطانوی قوانين اور نظام سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ يہ آسان کام نہیں۔ لندن سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر گل نواز خان کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے کسی کو ملک بدر کرنے کا عمل تحویل مجرمان کے معاہدے کی عدم موجودگی میں بہت مشکل، طویل اور پیچدہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''آسان قانونی راستہ شايد یہی ہوتا کہ دونوں ممالک کے درمیان تحویل مجرمان کا معاہدہ ہو، جو نہیں ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ بہت مشکل ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی قانون اعانت کے معاہدے کے حوالے سے بات چیت ہوئی تھی لیکن اس کی بھی کوئی باضابطہ شکل نہیں نکل سکی۔ اب اگر حکومت نواز شریف کی حوالگی چاہتی ہے، تو اسے پاکستانی عدالت کے فیصلے کے ساتھ سیکرٹری آف اسٹیٹ کو درخواست دینی پڑے گی، جہاں سے معاملہ مجسٹریٹ کورٹ جائے گا اور وہاں نواز شریف کو پورے دفاع کا موقع دیا جائے گا۔ یہاں اگر نواز شریف کے خلاف فیصلہ ہو بھی جائے، تو ان کو اپیل کا حق ہوگا اور وہاں بھی وہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ تو یہ ایک لمبا اور پیچیدہ عمل ہوگا اور اتنا آسان نہیں ہوگا، جتنا لوگ سمجھ رہے ہیں۔‘‘

کراچی میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری اور سیاسی سرگرمیاں

پاکستان کی ساکھ متاثر

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر قانون و انسانی حقوق کے ليے کام کرنے والے کارکن انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے پاس بہت سارے دلائل ہیں، جو برطانوی عدالتیں سنیں گی اور ان کا اثر ان کے فیصلوں پر بھی ہوگا۔ ''سب سے پہلا نکتہ میاں صاحب یہ اٹھا سکتے ہیں کہ ان کے خلاف جس جج نے فیصلہ دیا، اس پر دباؤ تھا۔ جج کی ويڈیو منظر عام پر آ چکی ہے۔ نواز شريف يہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقریریں کیں اور نتيجتاً ان کے خلاف مقدمات 'بد نيتی‘ و سياسی انتقام پر مبنی ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ پانامہ فیصلہ اگر حکومت دکھاتی ہے تو دنیا میں لوگ اس پر ہنسیں گے اور پاکستان کی ساکھ مزید خراب ہوگی۔‘‘

آرمی چیف کا بیان اور سیاسی حلقوں میں جاری بحث

پی ٹی آئی حزب اختلاف کے خلاف کس حد تک جائے گی؟

انعام الرحیم کا مزید کہنا تھا کہ آئی جی سندھ کا اغواء بھی نواز شریف کے دفاع میں جائے گا۔ ''میاں صاحب کہیں گے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور جب سب سے بڑا پولیس آفیسر محفوظ نہیں تو وہ پاکستان میں کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ آئی جی والا کیس پوری بین الاقوامی پریس نے اٹھایا ہے اور برطانیہ کی عدالتیں بھی اس سے واقف ہوں گی۔ اس کے علاوہ حکومت کے اپنے گمشدہ افراد کی بازیابی کے ليے کام کرنے والے کمیشن کا کہنا ہے کہ چار ہزار سے زائد افراد جبری طور پر گمشدہ ہیں۔ ان سارے نکات کی وجہ سے پاکستان کی انسانی حقوق کے حوالے سے ساکھ بہت خراب ہوئی ہے اور مغربی ممالک میں انسانی حقوق کے مسئلے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ تو یہ ساری باتیں میاں صاحب کے حق میں جائیں گی۔‘‘

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ جب برطانیہ کو کوئی شخص مطلوب ہوتا ہے تو 'ہم انہیں فوراً دے دیتے ہیں لیکن جب پاکستان یہ مطالبہ کرتا ہے تو وہ معذرت کر لیتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا، ''اس میں قصور صرف برطانیہ کا نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت برطانیہ کے ساتھ تحویل مجرمین کا معاہدہ کیوں نہیں کرتی۔ اگر حکومت واقعی قومی دولت لوٹنے والوں کو واپس لانا چاہتی ہے تو نہ صرف برطانیہ بلکہ سوئٹزرلینڈ اور امریکا کے ساتھ بھی معاہدہ کرنا چاہیے۔ موجودہ صورت حال میں مجھے نہیں لگتا کہ برطانیہ نواز شریف کو پاکستان کے حوالے کرے گا۔‘‘

برطانیہ میں مقیم پاک سرزمین پارٹی کے رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے حالات اور پاکستان میں موجودہ سیاسی ماحول کے پیش نظر یہ ممکن نہیں کہ نواز شریف کو برطانیہ پاکستان کے حوالے کرے۔ پاکستان میں شفاف نظام انصاف کی کمی ہے، جو نواز شریف کا مضبوط دفاع ہوگا۔ سیاسی انتقام کی روایت بھی پرانی ہے اور حکومتی وزراء کے بیان سے سیاسی انتقام کا تاثر مل رہا ہے۔ یہ بھی سابق وزیر اعظم کے دفاع میں جائے گا اور سب سے بڑھ کر کوئی قانونی معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان نہیں ہے۔ تو حکومت کی شعلہ بیانی صرف اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے ليے ہے۔‘‘

نہ اپوزيشن تحريک ميں دم ہے اور نہ وہ کچھ حاصل کر سکے گی، شبلی فراز