’نواز شریف اپنے بیان پر ڈٹ گئے‘ نون لیگ ابہام کا شکار
14 مئی 2018آج نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد نواز شریف کے بیان کو غلط اورگمراہ کن قرار دیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کمیٹی کے اجلاس اور نواز شریف کی طرف سے اپنے بیان کا دفاع کرنے سے ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہو گا۔
کئی مبصرین نواز شریف کے بیان اور ان کی جانب سے اس کے دفاع کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس بیان سے مسلم لیگ نون کو سیاسی طور پر سخت نقصان ہو گا۔ معروف تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس بیان اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نواز شریف نے یہ بیان دے کر نون لیگ پر سیاسی خود کش حملہ کر دیا ہے۔ نون لیگ پہلے ہی ان کے کرپشن کا دفاع نہیں کر پا رہی تھی اور لوگ ان کی پارٹی چھوڑ کر جا رہے تھے۔ اب ان کے پارٹی کو لوگ بڑے پیمانے پر چھوڑیں گے۔ اگر نون لیگ نے نواز شریف کے اس بیان سے لا تعلقی نہیں کی تو پھر اسے زبردست مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ دوسری طرف اگر وزیرِ اعظم نے اس بیان کے خلاف کوئی ٹھوس موقف نہیں اپنایا تو پھر فوج اور حکومت کے درمیان کشیدگی کی بڑھے گی۔‘‘
حکومت کے خلاف مزاحمت کے آثار شروع ہو گئے ہیں۔ پی پی پی نے نواز شریف کے بیان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک التواء جمع کرا دی ہے، جب کہ پنجاب اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں بھی تحریکِ انصاف کی طرف سے مذمتی قراردادیں جمع کرا دی گئیں ہیں۔ پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی مبصرین نے بھی اس بیان کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ کچھ نے نواز شریف کی طرف سے اس بیان پر ڈٹ جانے کے عمل کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا ہے۔
نواز شریف بمقابلہ چیف جسٹس، ’جنگ‘ کہاں تک جائے گی؟
مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بار پھر ڈیل کی خبریں
’نواز شریف عشق بھی ہے اور اب ضد بھی‘
نون لیگ بضد ہے کہ میاں صاحب نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو حقائق کے منافی ہو اور پہلے نہ کہی گئی ہو۔ پارٹی کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو اپنا نقطہء نظر دیتے ہوئے کہا، ’’کیا مشرف نے یہ نہیں کہا کہ لشکرِ طیبہ اور افغان طالبان ہمارے لوگ ہیں۔ کیا جنرل محمود درانی اور دوسرے لوگوں نے ممبئی حملوں کے حوالے سے بیانات نہیں دیے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہم جاتے ہیں اور دہشت گردی پر بات کرتے ہیں تو کوئی ہمارا بیانیہ نہیں سنتا۔ الٹا لوگ ہم سے لشکرِ جھنگوی، لشکرِ طیبہ اور دوسرے جہادی گروپوں کے حوالے سے سوالات پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو میرے خیال میں میاں صاحب نے کوئی ایسی غلط بات نہیں کی، جو حقائق کے منافی ہو۔‘‘
پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس بیان کے بابت مسلم لیگ ن میں پارٹی پالیسیوں کے حوالے سے ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا تھا کہ بھارتی میڈیا نے سابق وزیر اعظم کے بیان کو توڑ مروڑ ک پیش کیا ہے لیکن آج نواز شریف کی طرف سے اپنے موقف پر ڈٹ جانے کے بعد، یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ شہباز مصالحتی جب کہ نواز مزاحمتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس حوالے سے پارٹی میں ابہام موجود ہے،’’یقیناً پارٹی میں اس حوالے سے پریشانی موجود ہے کیونکہ میاں نواز شریف نے ایک بیان دیا اور شہباز صاحب نے دوسرا۔ آج بھی دونوں کے الگ الگ جلسے ہیں۔ میرے خیال سے پارٹی کو اس حوالے سے کوئی ایک رائے قائم کرنی چاہیے۔‘‘
کئی تجزیہ نگار وں کے خیال میں ملک موجودہ صورتِ حال میں سیاسی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ سابق ایم این اے اور اے این پی کی مرکزی رہنما بشری گوہر کے خیال میں جو لوگ اس بیان پر بلا ضرورت تبصرے کر رہے ہیں۔ ان کے تبصروں کی وجہ سے ہی سیاسی درجہء حرارت بڑھ رہا ہے، ’’میرے خیال میں پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد پر ہمیں عمل کرنا چاہیے، جس میں یہ بات زور دے کر کہی گئی تھی کہ ہم اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ صرف اس قرار داد کے ذریعے ہی ہم ملک کو بھی بچا سکتے ہیں اور سیاسی انتشار سے بھی بچ سکتے ہیں۔‘‘