نواز شریف واپس پاکستان آئیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کی تنبیہ
1 ستمبر 2020اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے خبردار کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دس ستمبر کے روز عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا، جب یہ عدالت ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں ان کی اپیلوں کی سماعت کرے گی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی غرض سے گزشتہ برس نومبر میں رہا کیا گیا تھا اور وہ تب سے لندن ہی میں ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کا کہنا تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم کو مفرور قرار دینے سے پہلے انہیں وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ عدالت میں حاضر ہو سکیں۔ چار ہفتوں کے لیے لندن جانے کی اجازت انہیں لاہور ہائی کورٹ نے دی تھی اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ سفر کرنے کے قابل نہ ہوئے تو اس اجازت میں توسیع بھی کر دی جائے گی۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں ستر سالہ نواز شریف کو بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں لیکن سن دو ہزار سترہ میں پاکستانی سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔
تاہم بعد ازاں ان کی سزا معطل کر دی گئی تھی اور وہ ایک خصوصی ایمبولینس طیارے کے ذریعے لاہور سے روانہ ہو گئے تھے۔ لندن پہنچنے کے بعد سے وہ زیادہ تر وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ فیملی فلیٹ میں ہی رہے اور اسی وجہ سے ان پر تنقید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ناقدین الزامات عائد کر رہے ہیں کہ نواز شریف نے مبینہ طور پر اپنی طبی رپورٹوں میں ہیر پھیر کیا تھا اور یوں انہیں تشویشناک حد تک بیمار ظاہر کیا گیا تھا۔
نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کا کہنا ہے کہ ان کے والد صحت یاب ہونے یا پھر ڈاکٹروں کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد ہی وطن لوٹیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد غیرضروری طور پر لندن نہیں رہنا چاہتے۔
نواز شریف کو پاکستان میں متعدد مقدمات کا سامنا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیوں کہ ان کے ملک کی طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے شدید اختلافات ہیں اور اسی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بطور وزیر اعظم کبھی بھی اپنے عہدے کی مدت مکمل نہیں کرنے دی۔
ا ا / م م (اے پی)