نواز شریف کی لندن روانگی، وجہ طبی معائنہ یا پاناما لیکس؟
13 اپریل 2016نواز شریف کی اپنے اہل خانہ سمیت برطانیہ روانگی کے بعد حکومتی رہنما ان کے اس سفر کے محرکات کے حوالے سے مسلسل صفائیاں دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف کینیڈا سے ویڈیو لنک کے ذریعے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے الزام لگایا ہے کہ نواز شریف کی روانگی کا معاملہ طبی معائنے کا نہیں بلکہ پاناما لیکس کے سلسلے میں ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں اگر نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے آزاد ہوتے تو پاناما لیکس اسکینڈل کے بعد حکمران اب تک برطرف ہو چکے ہوتے۔
اسی دوران پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نواز شریف کو دل کا ایک عارضہ لاحق ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے ترکی کا حالیہ دورہ منسوخ کر کے صدر ممنون حسین کو اس دورے پر جانے کی درخواست کی تھی۔ ان کے بقول نواز شریف ڈاکٹر سے اجازت ملتے ہی کم سے کم وقت میں واپس وطن لوٹ آئیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق اب ’اس ملک میں بعض لوگوں کے لیے بیمار ہونا بھی گناہ ہو گیا ہے کیونکہ اب بیماری کو بھی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘۔ وزیر داخلہ نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ حسن نواز اور حسین نواز کے کاروبار پر حکومت کو نشانہ بنانا ایک سیاسی چال ہے اور اس کا مقصد حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ہٹانا ہے۔ ان کے بقول اگر بیرون ملک کاروبار کرنا جرم ہے، تو پھر یہ باقی سیاستدان اس اصول سے مبرا کیوں ہیں؟ ’’پاناما لیکس نواز شریف کے بیٹوں کا معاملہ ہے، ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہی اس معاملے میں جواب دیں گے۔‘‘
ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف تو سرکاری وسائل سے اپنا علاج کروانے کے لیے ملک سے باہر چلے گئے ہیں، ملک میں علاج کی سہولتوں سے محروم غریب عوام کہاں جائیں؟
ادھر پنجاب اسمبلی کے باہر بھی اپوزیشن جماعتوں نے ایوان میں پاناما لیکس پر بحث کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف نے ایک ٹوئٹر پیغام میں شریف فیملی میں پائے جانے والے مبینہ اختلافات کی خبروں کی تردید کی اور کہا کہ شریف خاندان نہ کسی دباؤ میں ہے اور نہ ہی پریشانی میں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے ایک روز پہلے کہا تھا کہ نواز شریف لندن میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے ’گھٹنوں کو ہاتھ لگانے‘ جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ایک ترجمان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کی لندن میں آصف زرداری سے کوئی ملاقات طے نہیں ہے اور نہ ہی کسی طرف سے ایسی کسی ملاقات کی خواہش کی گئی ہے۔
بدھ تیرہ اپریل کی صبح نواز شریف اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتی عمرہ سے لاہور ایئر پورٹ پہنچے۔ اپنی روانگی سے پہلے انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری پنجاب سے ملاقات میں انہیں ہدایات جاری کیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے لندن اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور طاہرالقادری بھی لندن میں موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان بھی اگلے ایک دو دنوں میں لندن پہنچنے والے ہیں۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پہلے ہی وہاں موجود ہیں۔ پاکستان کے کچھ وفاقی وزراء بھی لندن جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کے رائے ونڈ میں واقع گھر کے سامنے دھرنا دینے کے فیصلے کا ساتھ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مشورے کے بعد کیا جائے گا۔
پاکستان میں اخبارات، ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر حکومت میں ’ان ہاؤس‘ تبدیلی یا عبوری قومی حکومت کی تشکیل کی صورت میں جن متوقع وزرائے اعظم کے نام سامنے آ رہے ہیں، ان کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو چکی ہے۔ ان ناموں میں شہباز شریف، چوہدری نثار، اسحاق ڈار، ایاز صادق،مریم نواز، مشاہد حسین، چوہدری محمد سرور، ڈاکٹر مالک اور خورشید قصوری کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج اور بیرون ملک مقیم ایک پاکستانی خاتون بینکر کے نام بھی شامل ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اگلے وزیر اعظم کے نام کا حتمی اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس عہدے کے لیے کوئی ’انتہائی غیر متوقع شخصیت‘ بھی سامنے آ سکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی راشد رحمٰن نے بتایا کہ پاناما لیکس کے بعد پاکستان میں ایک ہلچل تو مچی ہوئی ہے، حکومت کو شرمندگی کا سامنا ہے اور اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت پر بوچھاڑ کر رہی ہیں، لیکن ان کے بقول پاکستان میں اس اسکینڈل کے حوالے سے مؤثر تحقیقات کے ضمن میں ابھی تک کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
راشد رحمٰن کے بقول اگر حکومت نے ان تحقیقات کے بارے میں جلد فیصلہ نہ کیا اور ’ان ہاؤس‘ تبدیلی کی صورت میں بھی حقائق سامنے نہ لائے گئے تو صورتحال بہت زیادہ خراب ہو سکتی ہے اور یہ بات سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہو گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کا رول کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات تو طے ہے کہ یہ پیپرز پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جاری نہیں کیے۔ اگلے حالات میں اسٹیبلشمنٹ کتنا فائدہ اٹھا سکتی ہے، اس بارے میں حتمی اور فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہو گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کے منفی اثرات ابھی تک تو ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ پر پڑتے دکھائی نہیں دے رہے، البتہ آنے والے دنوں میں اس کے اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔