نواز شریف کی پاکستان واپسی، چار سال میں کیا تبدیلی آئی؟
21 اکتوبر 2023تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد آج ہفتے کے روز وطن واپس پہنچے۔ ان کی واپسی کا اولین مقصد آئندہ عام انتخابات سے قبل اپنی جماعت ن لیگ کو سیاسی طور پر منظم اور مضبوط کرنا ہے۔
پاکستان کو جنوری 2024 ء میں ہونے والے انتخابات سے قبل سلامتی، اقتصادی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔ نواز شریف کے کلیدی مخالف اور عوام میں بے پناہ مقبول رہنما عمران خان جیل میں بند ہیں۔ لندن سے واپسی پر نواز شریف نے گزشتہ کئی دن دبئی میں گزارے اور ہفتے کو مقامی وقت کے مطابق بعد دوپہر ڈیڑھ بجے اسلام آباد پہنچے۔
پاکستان روانگی سے قبل دبئی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا، ’’ہم انتخابات کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ملک (پاکستان) جسے خوشحالی کی بلندیوں پر ہونا چاہیے تھا، وہ حقیقت میں پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، ''ہم یہاں کیسے پہنچے؟ یہاں کیوں آئے؟‘‘
واپسی فوج کی مدد سے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی واپسی ممکنہ طور پرطاقت ور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ثالثی سے ہوئی ہے، جس نے عمران خان کی پارٹی کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا۔ عمران خان کو گزشتہ سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کر دیا گیا تھا۔
نواز شریف اسلام آباد سے ہفتہ بیس اکتوبر کی شام لاہور پہنچیں گے، جہاں ان کی جماعت نے ان کے استقبال کے لیے ایک بڑے جلسے کا اہتمام کر رکھا ہے ۔ صوبائی حکام کے مطابق گریٹر اقبال پارک میں عوامی ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے 7,000 سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
مہنگائی کا مسئلہ
اپنے قائد کے استقبال کے لیے آنے والے ایک ن لیگی کارکن رضی اللہ نے کہا، ''بہت زیادہ مہنگائی کی وجہ سے غریب لوگ مایوس ہیں۔ خدا نے نواز شریف کو واپس آنے اور چیزوں کو تبدیل کرنے کا موقع دیا ہے۔ وہ پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں۔‘‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو امید ہے کہ ان کے قائد کا سیاسی اثر و رسوخ معاشی پسماندگی کے اس دور میں ان کی مقبولیت بحال کر دے گا۔ ریلی میں شرکت کے لیے 250 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کر کے آنے والے 50 سالہ عمر صابر نے کہا، ''میں ایک غریب آدمی ہوں، میں نواز شریف سے صرف ایک چیز کی توقع رکھتا ہوں کہ وہ مہنگائی کم کریں۔‘‘
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بدعنوانی کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی اور وہ قید کی سزا ادھوری چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ اس ہفتے کے آغاز پراسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی آئندہ منگل تک کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کر لی تھی، جس کی وجہ سے وہ ملک واپسی پر فوری گرفتاری کے خطرے سے بچ گئے تھے۔
چار سال تک جلا وطن رہنے والے نواز شریف کی قسمت اس وقت بدل گئی تھی، جب ان کے بھائی شہباز شریف گزشتہ سال برسراقتدار آئے اور ان کی حکومت نے قانون سازوں کی نااہلی کو پانچ سال تک محدود رکھنے سمیت نیب قانون میں تبدیلیوں کی نگرانی بھی کی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی اپنے مختصر دور اقتدار میں مہنگائی اور کرنسی کے ذخائر کے بحرانوں پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد قوم کو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اقتدارمیں واپسی کے راستے میں کھڑی قانونی رکاوٹوں کو ممکنہ طور پر ان کی پارٹی اور فوج کے درمیان ایک 'بیک روم ڈیل‘ کے حصے کے طور پر ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ انتظامات کیے گئے تھے، اس کے بغیر وہ واپس آنے کا فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
پاکستان میں سیاست دان اکثر ایسی قانونی کارروائیوں میں الجھتے رہتے ہیں، جن کے بارے میں انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ اس طاقت ور ملکی فوج کی طرف سے ترتیب دی گئی ہوتی ہیں، جس نے ملکی تاریخ کے نصف سے زائد عرصے تک پاکستان پر براہ راست حکومت کی اور لامحدود اختیارات اور بے پناہ طاقت سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔
نواز شریف کے چاہنے والے انہیں 'شیر پنجاب‘ کہتے ہیں۔ لیکن انہیں پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں خاندانی سیاست سے تنگ ووٹروں اور ایک نوجوان آبادی کے دل جیتنے کا مشکل کام درپیش ہے، جسے عمران خان کی سوشل میڈیا سے واقف پارٹی نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے کہا، ''نواز شریف کے لیے کلیدی چیلنج سب سے پہلے خود کو اور اپنی پارٹی کو عمران خان کی جگہ لینے کے لیے ایک قابل عمل آپشن کے طور پر تسلیم کروانا ہے، جو پہلے سے ہی مقبول ہیں، اور دوسرا چیلنج معیشت کا رخ موڑنا ہو گا۔‘‘
ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)