نیا کورونا وائرس: اونٹوں سے انسانوں میں منتقلی کا شبہ
9 اگست 2013کورونا وائرس کی انسانوں کے لیے مہلک اس قسم کا پتہ پہلی مرتبہ مشرق وسطیٰ میں چلا تھا اور جمعہ نو اگست کو برطانوی دارالحکومت لندن سے شائع ہونے والے ایک نئی طبی تحقیق کے نتائج کے مطابق ممکن ہے کہ اس بیماری کا وائرس اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہو۔
کورونا وائرس یا CoV کی اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم یا MERS-CoV کا نام دیا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر انفلوئنزا کی طرح کی بیماری کا سبب بنتا ہے جس کے نتیجے میں مریضوں کے انتقال کر جانے کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جب سے طبی تحقیق کے ماہرین کو اس وائرس کا پتہ چلا ہے، وہ مسلسل ان کوششوں میں رہے ہیں کہ ایسے جانوروں کا پتہ چلا سکیں جو اس وائرس کے لیے host یا میزبان کا کام دیتے ہوئے اس کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہے ہیں۔
طبی تحقیقی جریدے The Lancet میں شائع ہونے والے اس نئی ریسرچ کے نتائج کے مطابق ہالینڈ کے صحت عامہ اور ماحول سے متعلق قومی ادارے NIPHE کے محققین کی قیادت میں ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے کئی مختلف جانوروں کے خون کے 349 نمونے جمع کیے۔ اس دوران خلیج کی عرب ریاست اومان میں عربی نسل کے Dromedary camels کہلانے والے اونٹوں کے جو 50 نمونے حاصل کیے گئے، ان سب میں MERS نامی کورونا وائرس یا اس سے بہت ملتے جلتے جرثومے کی اینٹی باڈیز پائی گئیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ مختلف مویشیوں، بھیڑوں، بکریوں اور Bactrian camels یا جمل ذو سنامین کہلانے والے دو کوہانوں والے اونٹوں سمیت جانوروں کی جن دیگر قسموں کے خون کے نمونوں کا معائنہ کیا گیا، ان میں سے کسی میں بھی اس وائرس کی اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں۔
اس تحقیق کے نتائج مرتب کرنے والے محققین کی سربراہی ماحول اور پبلک ہیلتھ کے ذمہ دار ڈچ نیشنل انسٹیٹیوٹ کی خاتون ماہر شانتال روئسکن نے کی۔ ’دی لینسَیٹ‘ کے اس مضمون کے مصنفین کے مطابق، ’’Dromedary camels یا عربی نسل کے اونٹوں کا تعلق مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے اونٹوں کی سب سے مقبول قسم سے ہے۔ عرب دنیا میں اس قسم کے اونٹوں کو دوڑوں کے مقابلوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس قسم کے جانوروں کے گوشت اور دودھ کا استعمال بھی کافی زیادہ کیا جاتا ہے۔ ان اونٹوں کے انسانوں کے ساتھ رابطوں کی کئی مختلف شکلوں کی وجہ سے یہ بالکل ممکن ہے کہ یہ وائرس ان جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو سکے۔‘‘
امریکا میں ایک حکومتی ادارے کے لیے کام کرنے والے سائنسدان وِنسنٹ میونسٹر نے ان طبی تحقیقی نتائج کی اشاعت کے بعد ان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی ’نئی مہلک قسم کے ہاتھوں مزید انسانی ہلاکتوں کو روکنے کا ایک مؤثر اور کم خرچ طریقہ‘ یہ ہو سکتا ہے کہ اس جرثومے کی جانوروں سے انسانوں میں منتقلی کا راستہ روک دیا جائے۔
گزشتہ برس ستمبر سے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں اس وائرس کے حملے کا شکار ہونے والے MERS نامی بیماری کے مریضوں کی تعداد 94 ہو چکی ہے۔ انسانی نظام تنفس کو بری طرح متاثر کرنے والے اس مرض کے ہاتھوں اب تک 46 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔