نیٹو ورزائے دفاع کی ملاقات، جیمز میٹس برسلز میں
8 نومبر 2017امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس بدھ کے دن برسلز میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے دفاع کی ایک میٹنگ میں کئی اہم معاملات پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ عراق اور شام میں انتہا پسند گروہ داعش کی پسپائی، افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور شمالی کوریا کا میزائل اور جوہری پروگرام کچھ ایسے موضوعات ہیں، جو موجودہ صورتحال میں انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں میٹس اپنے اتحادی ممالک کے نمائندوں کے ساتھ روس کے معاملے پر بھی گفتگو کریں گے۔
نیٹو کا افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ
نیٹو کی مشرقی دہلیز پر روسی جنگی مشقیں، عسکری طاقت کا مظاہرہ
افغانستان میں اب کیا ہوگا؟ یورپ امریکی جواب کے انتظار میں
برسلز روانہ ہونے سے قبل میٹس نے صحافیوں کو بتایا کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی نظریں امریکا پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ داعش کی مکمل شکست کی خاطر کیا حکمت عملی تیار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کے ساتھ ملاقاتوں میں اس تناظر میں ایک متفقہ ایکشن پلان تیار کرنے کی کوشش کریں گے۔
شامی خانہ جنگی میں داعش کے خلاف کارروائی کی خاطر امریکی حکومت کرد اور شامی عرب جنگجوؤں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے لیکن نیٹو رکن ملک ترکی کرد YPG نامی اس ملیشیا کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے اور یہ معاملہ امریکا اور ترکی کے مابین تنازعے کا سبب بھی بن چکا ہے۔
ترکی کا کہنا ہے امریکا کو اس جنگجو گروپ کو فراہم کیے جانے والا اسلحہ واپس لے لینا چاہیے تاہم امریکی وزیر دفاع نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس برسلز میں اپنے ترک ہم سے بھی ملیں گے اور اس معاملے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اس کے علاوہ نیٹو رکن ممالک کے وزرائے دفاع کی اس ملاقات میں افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں بھی گفتگو ہو گی۔ سولہ سالہ اس تنازعے کے دوران افغانستان میں لاکھوں ڈالرز کی سرمایا کاری کی جا چکی ہے لیکن اس وسطی ایشیائی ملک میں قیام امن کی امید ابھی تک نظروں سے اوجھل ہے۔
ایک مرتبہ پھر نیٹو نے کہا ہے کہ وہ افغان فورسز کی تربیت اور مشاورت کی خاطر اضافی غیر ملکی فوجی افغانستان تعینات کرے گا۔ ذرائع کے مطابق اضافی تین ہزار فوجی افغانستان تعینات کرنے کے حوالے سے اتفاق کر لیا گیا ہے، یوں افغانستان میں اب مشن کے تحت موجود فوجیوں کی تعداد تیرہ ہزار سے بڑھ کر سولہ ہزار ہو جائے گی۔ ساتھ ہی اس امر پر بھی گفتگو ہو گی کہ افغانستان میں قیام امن کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات کو بھی ممکن بنایا جائے۔