نیٹو کے یورپی ارکان کے عسکری اخراجات
4 جون 2014یوکرائن کے بحران نے روس کے ہمسایہ یورپی ملکوں کی تشویش میں بالخصوص اضافہ کیا ہے۔ تاہم نیٹو حکام اور امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے دفاعی بجٹ میں اضافے کے مطالبوں پر اس دفاعی اتحاد کے بڑے ملک اب تک دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے۔
ابھی منگل کو باراک اوباما نے دورہ پولینڈ کے موقع پر یورپ میں امریکا کی عسکری موجودگی میں اضافے کے منصوبوں کا اعلان کیا جن پر ایک بلین ڈالر خرچ ہو گا۔ اس تناطر میں اے پی نے یورپ میں نیٹو کے بڑے رکن ملکوں کے دفاعی بجٹ کا جائزہ پیش کیا ہے:
برطانیہ نے اپنے جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے ساتھ گزشتہ برس دفاعی بجٹ پر 60 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے۔ نیٹو کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے رکن ملکوں میں اخراجات کے لحاظ سے برطانیہ سب سے آگے ہے۔ لندن حکام نے اس بجٹ میں اضافے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔
فرانس دس برس قبل اپنے جی ڈی پی کے تناسب سے 2.5 فیصد دفاعی بجٹ پر خرچ کر رہا تھا۔ گزشتہ برس یہ شرح 1.9 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ نے رواں ہفتے عسکری اخراجات میں کمی نہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
جرمنی نے اپنے جی ڈی پی کا 1.3 فیصد دفاعی بجٹ کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ جرمنی اپنی فوج میں کمی کر رہا ہے اور اس کی جانب سے دفاعی بجٹ میں بھی معمولی کمی متوقع ہے۔ اس کے برعکس چانسلر انگیلا میرکل نے حال ہی میں کہا تھا کہ عسکری اخراجات کی موجودہ سطح برقرار رکھی جائے گی۔
اٹلی اپنے جی ڈی پی کے تناسب سے 1.2 فیصد دفاعی بجٹ پر خرچ کرتا ہے اور روم حکام نے اس میں اضافے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ اس کے برعکس اٹلی کے وزیر اعظم ماتیو رینزی عسکری اخراجات میں تین بلین یورو کی کمی کرنا چاہتے ہیں۔
ہالینڈ نے اپنے جی ڈی پی کا 1.3 فیصد دفاعی بجٹ کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ اس کی حکومت 2017ء تک اس شرح کو 1.15فیصد تک لانا چاہتی ہے۔
پولینڈ 2004ء میں نیٹو کا رکن بنا تھا اور اس نے تب سے ہی اپنے دفاعی بجٹ کو جی ڈی پی کے تناسب سے دو فیصد سے نیچے رکھا ہے۔ رواں ہفتے پولینڈ کے صدر برونسلاو کومورووسکی نے وارسا میں مہمان صدر باراک اوباما کے ساتھ بات چیت میں اس بجٹ کو دو فیصد تک کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
اسپین اقتصادی بحران کا شکار رہا ہے۔ نیٹو کے اعدادوشمار کے مطابق 2009ء میں یہ اپنے جی ڈی پی کا 1.2 فیصد دفاعی بجٹ پر خرچ کر رہا تھا۔ اب یہ شرح 0.9 فیصد ہو چکی ہے۔ میڈرڈ حکام نے ابھی تک اس بجٹ میں اضافے کے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔