وادیٴ سوات: طالبان کا خطرہ ابھی موجود ہے
16 اپریل 2011سیاحوں کی جنت سمجھی جانے والی وادی، سوات دارالحکومت اسلام آباد سے 133 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔اس علاقے میں مقامی انتہاپسند طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کی کامیاب فوجی کارروائی ایک مثال کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ گمان کیا جا رہا ہے کہ کمزور معاشرتی نظام کے ساتھ غربت اور سست روی کی شکار معیشت کے باعث عسکریت پسند دوبارہ اپنا اثرو رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
مٹہ کے 45 سالہ رہائشی محمد رفیق کہتے ہیں، ’’اگر کسی شخص کو بھوک لگی ہے۔ اس کے پاس خود کو اور بچوں کو کھلانے کے لیےکچھ بھی نہیں ہے تو وہاں پرانی صورت حال کے دوبارہ پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہے اور حکومت کو ہماری مدد کرنی چاہئے۔ اگر فوج یہاں سے چلی جاتی ہے توطالبان دوبارہ یہاں کا رخ کر سکتے ہیں اور پھر ہم کسی کی مدد حاصل نہیں کر سکیں گے۔‘‘
اگر پاکستانی فوج اس علاقے سے نکل جاتی ہے اور کمزور سویلین حکومتی ڈھانچہ انتظامی امور صحیح طریقے سے نہیں سنبھال پاتا تو سوات دوبارہ طالبان کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔ گلوبل انٹیلجنس تھنک ٹینک سٹریٹفور (Stratfor) کے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر کامران بخاری کہتے ہیں، ’’اگر سوات سے فوج نکل جاتی ہے اور وہاں پر کوئی متبادل سیاسی ڈھانچہ نہیں ہے، تو پھر یہ ایک ایسا ماحول ہو گا کہ عسکریت پسند دوبارہ وہاں فعال ہوسکتے ہیں۔‘‘
سوات کے بعض علاقوں میں حملے اب بھی جاری ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی فوج نے سات عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ فوج کے مطابق یہ عسکریت پسند سوات میں اپنا اثرو رسوخ دوبارہ بڑھانا چاہتے تھے۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوات میں پاکستانی فوج کو ایک لمبے عرصے تک رہنا ہو گا۔ عسکری امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود اس صورت حال کے تناظر میں کہتے ہیں، ’’ظاہر ہے پاکستانی فوجی اس علاقے میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان دستوں کو کسی اور جگہ استعمال کیا جا سکتا تھا۔‘‘
طلعت مسعود کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی سویلین انتظامیہ کو سوات کی عوام کو درپیش معاشرتی اور معاشی مسائل حل کرنا ہوں گے، ورنہ اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ وہاں سن 2007 والی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور اس علاقے میں ایک بار پھر طالبان کا اثر و رسوخ قائم ہوسکتا ہے۔
سوات میں فوجی آپریشن سے پہلے لاکھوں افراد نےنقل مکانی کی تھی۔ اب واپس آنے کے بعد یہاں کے لوگ گھروں کی تعمیر نو، کاروبار اور کھیتی باڑی کے نظام کو دوبارہ شروع کرنے میں مصروف ہیں۔ سوات کے ایک زمیندار نواب علی خان کا کہنا ہے کہ سوات کے لوگوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کم از کم سات سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو امدادی رقوم منصفانہ طریقے سے نہیں دی گئیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پچاس فیصد لوگوں کو کسی بھی طرح کی مدد فراہم نہیں کی گئی۔‘‘ دوسری طرف کامران بخاری کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ یہاں پر سیاسی قیادت کی کمی ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عابد حسین