وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ سے کن اہم سودوں کی توقع ہے؟
20 جون 2023بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آج منگل کو تین روزہ سرکاری دورے پر امریکہ کے لیے روانہ ہوئے، جو قریبی اتحادیوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ وہ اس دورے کے دوران امریکہ کے کاروباری رہنماؤں اور بیرون ملک مقیم بھارتی افراد سے ملاقاتیں کرنے کے ساتھ ہی امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے ان کے اعزاز میں وائٹ ہاوس میں دیے جانے والے سرکاری عشائیہ میں بھی شرکت کریں گے۔
انسانی حقوق: مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر احتجاج کے منصوبے
وہ اس موقع پر امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے دوسری بار خطاب کریں گے۔ اس سے پہلے بھارت کے کسی رہنما نے اس ایوان سے دو بار خطاب نہیں کیا ہے، اور اس طرح وہ دنیا کے ان چنندہ رہنماؤں میں سے ہوں گے، جو دو بار تقریر کرچکے ہیں۔
چین کے مقابلے پر بھارت، امریکہ دفاعی تعلقات میں اضافے پر زور
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا، ''کسی بھی بھارتی وزیر اعظم نے کانگریس سے دو بار خطاب نہیں کیا۔ دنیا بھر میں بھی بہت کم لوگوں نے ایسا کیا ہے۔... جیسے ونسٹن چرچل، نیلسن منڈیلا...اسی لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔''
ایمیزون سے وال مارٹ تک: بھارت میں امریکی سرمایہ کاری، مودی کی چاندی
روانگی سے قبل مودی نے کیا کہا؟
نریندر مودی نے 20 جون منگل کی صبح ایک سرکاری بیان جاری کیا، جس میں اپنے دورہ امریکہ کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا، ''میں صدر جو بائیڈن اور خاتون اول ڈاکٹر جِل بائیڈن کی دعوت پر ریاستی دورے پر امریکہ کا سفر کر رہا ہوں۔''
بھارت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، امریکہ
انہوں نے مزید کہا کہ یہ دعوت نامہ ''ہماری جمہوریتوں کے درمیان شراکت داری کی طاقت اور مضبوطی کا عکاسی ہے۔''انہوں نے کہا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کثیر جہتی ہیں اور تمام شعبوں میں رشتے گہرے ہوئے ہیں۔
ایپل کے چین پر انحصار میں کمی کے لیے بھارت مددگار
ان کاکہنا تھا، ''امریکہ اشیاء اور خدمات میں بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت، دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں بھی قریبی تعاون کرتے ہیں۔''
نئی دہلی جی ٹوئنٹی اجلاس انتشار کا شکار، مشترکہ اعلامیے کے بغیر ختم
مودی نے کہا کہ یہ تعاون ''جی 20، کواڈ اور آئی پی ای ایف جیسے دو طرفہ اور کثیر جہتی فورموں میں تعاون'' کو مزید مضبوط کرے گا۔
انہوں نے امریکہ میں اس فعال بھارتی امریکی کمیونٹی سے بھی ملنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا جو بھارتی معاشرے کی بہترین نمائندگی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''مجھے یقین ہے کہ میرا دورہ امریکہ جمہوریت، تنوع اور آزادی کی مشترکہ اقدار پر مبنی ہمارے تعلقات کو مزید تقویت دے گا۔'' اور دونوں ممالک ''مشترکہ عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مضبوط ہیں۔''
اہم دفاعی معاہدوں کی توقع
اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ اس دورے کے دوران امریکہ اوربھارت کے درمیان کاروبار اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے متعدد معاہدوں کی توقع ہے، جس میں جیٹ انجن ٹیکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ شامل ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی کمپنی 'جنرل الیکٹرک' (جی ای) بھارتی کمپنی ایروناٹکس لمیٹڈ کے ساتھ جدید ترین جنگی جہازوں کے انجن بنانے کا ملٹی ملین ڈالر کا معاہدہ کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی بحریہ کا جنگی جہاز ہارنیٹ ایف/اے 18 اسی انجن کی مدد سے چلتا ہے۔
ہوا بازی کی مجموعی ٹیکنالوجی میں جیٹ انجن کی ٹیکنالوجی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور اگر ایک مینوفیکچرنگ یونٹ بھارت میں قائم ہوتی ہے، تو اس سے بھارتی فضائیہ کا چہرہ بدل سکتا ہے۔ امریکہ نے اس سے پہلے کبھی کسی کو اس سطح کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی اجازت نہیں دی ہے۔
چین کا سخت رد عمل
ادھر چین نے مودی کے اس دورے سے قبل کہا کہ بھارت کو امریکہ کے ''خود غرضی کے کھیل میں شامل ہونا چھوڑ دینا چاہیے۔'' اس نے ''چین کی اقتصادی ترقی کو ہراساں کرنے کے لیے بھارت کو آگے بڑھانے کی امریکی کوششوں کے تیز کرنے پر'' شدید نکتہ چینی کی ہے۔
چین کے سابق وزیر خارجہ وانگ ایی نے اس حوالے سے چین کے سرکاری اخبار 'گلوبل ٹائمز' میں ایک خصوصی مضمون لکھا ہے، جس انہوں نے کہا: ''امریکہ کا یہ جیو پولیٹیکل حساب کتاب ناکام ثابت ہو گا، کیونکہ عالمی سپلائی چین میں چین کی پوزیشن کو بھارت یا دنیا کی دیگر معیشتیں تبدیل نہیں کر سکتیں۔''
انہوں نے لکھا، ''سن 2014 میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مودی کا امریکہ کا یہ چھٹا دورہ ہے، تاہم سرکاری سطح پر پہلا دورہ ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ چین کا مقابلہ کرنے اور چینی اقتصادی پیش رفت کو ہراساں کرنے کی کوششوں کے تحت بھارت کو آگے بڑھانے کا عمل تیز تر کر رہا ہے۔''
انہوں نے مزید لکھا، ''فنانشل ٹائمز نے حال ہی میں یہ کہتے ہوئے متنبہ بھی کیا تھا کہ واشنگٹن کی مودی کو گلے لگانے کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی، کیونکہ بھارت کی بعض اشرافیہ نے امریکہ کی دلکش مہم کو مایوسی کے ساتھ نوٹ کیا ہے۔ انہیں تشویش ہے کہ امریکہ چین کے خلاف 'بھارت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے' کی کوشش کر رہا ہے۔''
چین کے سابق وزیر خارجہ وانگ ایی نے کہا، ''امریکہ کے جغرافیائی سیاسی حساب کتاب کو پڑھنا مشکل نہیں ہے۔ جیسا کہ بیشتر بھارتی اشرافیہ کو خدشہ ہے کہ بھارت کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مضبوط کرنے کی واشنگٹن کی بھر پور کوششیں بنیادی طور پر چین کی اقتصادی ترقی کو سست کرنا ہے۔ امریکہ کا یہ جغرافیائی سیاسی حساب کتاب ناکام ہو جائے گا، کیونکہ عالمی سپلائی چین میں چین کی پوزیشن کو بھارت یا دیگر معیشتیں تبدیل نہیں کر سکتیں۔''
اس مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی کمپنیوں کی جانب سے بھارت میں سرمایہ کاری بڑھانے کے باوجود بھی، ''جیسے کہ ایپل، چین کی سپلائی چین سے اب بھی جدا نہیں ہو سکتا۔''
''حقیقت میں امریکہ کے ساتھ بھارت کی تجارت بھی چین کے ساتھ اس کی تجارت کی جگہ نہیں لے سکتی، اور نہ ہی بھارت عالمی سپلائی چین میں چین کی جگہ لے سکتا ہے۔ اگر امریکہ اور بھارت اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں تو انہیں چین کو نشانہ بنانے کے بجائے آپس کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔''
انہوں نے لکھا کہ ''امریکہ بھارت سے یہ باتیں صرف کہتا رہتا ہے، تاہم شاذ و نادر ہی ان پر عمل کرتا ہے۔''
مضمون میں بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ امریکہ کے اس ''جغرافیائی سیاسی حساب کتاب کو ترک کر دے اور یہ کہ چین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعاون کا فروغ ہی ''مستقبل میں بھارتی ترقی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔''