1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیراعظم کی وجہ سے توہین رسالت قانون میں ترمیم کا بل واپس لے رہی ہوں، شیری رحمان

3 فروری 2011

پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم سے متعلق اپنا بل واپس لے لیا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم گیلانی متعدد باریقین دہانی کرا چکے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/109ry
تصویر: Abdul Sabooh

پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اطلاعات شیری رحمان نے قومی اسمبلی میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم سے متعلق جمع کرائےگئے اپنے بل سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جو متعدد بار اس بات کی یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جائے گی، نے بدھ کی رات ایوان کو بتایا تھا کہ شیری رحمان توہین رسالت سے متعلق اپنا بل واپس لینے پر تیار ہو گئی ہیں۔

شیری رحمان نے جمعرات کو ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسندی کو تشفی دینے کی پالیسی کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے بل واپس لیے جانے کے اعلان کے بعد اب ان کے پاس ترمیمی بل سے دستبردار ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

Weltwirtschaftsforum Davos Syed Yousuf Raza Gillani
توہین رسالت کے قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی، وزیراعظم گیلانیتصویر: AP

ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ بے شک یہ معاملہ پارٹی میں زیر بحث لایا جائے لیکن اس دوران شیری رحمان کو شدت پسندوں کی دھمکیوں کے پیش نظر مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔’’ شیری رحمان بڑی معزز، محترم خاتون ہیں۔ ان کی جان کو خطرہ ہے اس پر مجھے بڑی تشویش ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ شیری رحمان پاکستان کی ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ ان کی جان کو تحفظ ہونا چاہیے۔ اس معاملے کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے۔ شیری رحمان اور وزیراعظم صاحب آپس میں جو فیصلہ کر سکتے ہیں میں اس بارے میں کوئی بیان نہیں دے سکتا۔''

دوسری جانب بعض حلقے شیری رحمان کی طرف سے ترمیمی بل کی واپسی کو توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے حق میں پارلیمنٹ کے اندر اٹھائی جانے والی آخری آواز کا خاتمہ قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو شاتم رسول قرار دے کر سزا سنائے جانے کے بعد توہین رسالت سے متعلق متنازعہ قانون میں ترامیم کرنے یا نہ کرنے پربحث جاری تھی کہ کراچی میں ایک سترہ سالہ مسلمان طالب علم کو امتحانی پرچے میں مبینہ طور پرگستاخانہ کلمات تحریر کرنے پر توہین رسالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔

NO FLASH Pakistan Gouverneur Salman Taseer ermordet
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا معاملہ ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گیا ہےتصویر: DW

سول سوسائٹی کے رکن اور معروف وکیل جسٹس طارق محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسی فضاء پیدا کر دی گئی ہے کہ اب مذہبی معاملات پر بات کرنے سے خوف آتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’حال ہی میں ہونے والے واقعات میں بین السطور یہ پیغام دیا گیا ہے اور لوگوں پر پابندی لگا دی گئی ہے کہ آپ اسلام کے بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتے اور یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ آپ قرآن پاک پڑھیں ضرور لیکن، اس کی جو تشریح ہم آپ کو بتائیں گے اس کو آپ کو ماننا پڑے گا۔ ہم اس حوالے سے بہت پیچھے چلے گئے ہیں‘‘

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کیتھولک مسیحوں کےمذہبی رہنما پوپ بینڈکٹ حکومت پاکستان سے توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ تاہم پاکستان کے سخت گیر مذہبی حلقے اور دائیں بازو کی جماعتیں اس قانون کا خاتمہ تو دورکی بات اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود کو سیکولر جماعت کہلانے والی پپپلز پارٹی کی حکومت توہین رسالت کے معاملے پر اپنے ایک اہم رہنما صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کی ہلاکت کے باوجود اس قانون کوچھیڑ نہیں سکی۔

رپورٹ: شکور رحیم،اسلام آباد

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں