توہین رسالت کے ’نئے ملزم‘ کی رہائی، ہیومن رائٹس واچ کا دباؤ
3 فروری 2011ہیومن رائٹس واچ میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے محقق اعلیٰ بیڈی شیپرڈ نے کہا ہے، ’توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی بات کی جائے، تو پاکستان نے عدم برداشت کا ایک معیار قائم کر دیا ہے۔ ایک طالب علم کو اس بنیاد پر جیل بھیجنا کہ اس نے امتحانی پرچے میں کچھ لکھ دیا، بہت دکھ کی بات ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’ان الزامات کو ایک اسکول کے عہدے دار نے آگے بڑھایا، کیا یہی بات کم بری تھی کہ پولیس اور عدالتی حکام نے اسے جیل میں بھی ڈال دیا۔
کراچی میں پولیس نے محمد سمیع اللہ کو انٹرمیڈیٹ بورڈ کے ممتحن اعلیٰ کی شکایت پر گرفتار کیا ہے، جو انہوں نے 28 جنوری کو درج کرائی۔ سترہ سالہ سمیع کو بعدازاں عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں جج نے اسے بچوں کی جیل میں بھیجنے کا حکم دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش جاری ہے۔
خیال رہے کہ توہین رسالت کے متنازعہ پاکستانی قانون پر بحث میں اس کے غلط استعمال کا نکتہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں سینیئر مذہبی رہنماؤں نے حال ہی غور کا عندیہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ توہین رسالت کے قانون کے ناجائز استعمال پر غور کرنے کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی، جو مختلف مسلکوں کے دس ارکان پر مشتمل ہو گی۔
توہین رسالت قانون کے تحت الزام ثابت ہونے پر سزائے موت کا فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس نوعیت کی کسی سزا پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس کے برعکس توہین رسالت کے الزامات کا سامنا کرنے والے متعدد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔گزشتہ برس جولائی میں فیصل آباد کی ایک عدالت میں دو مسیحی بھائیوں کو اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، جب انہیں ہتھکڑی لگائے عدالت سے باہر لایا جا رہا تھا۔ ان پر بھی توہین رسالت کا مقدمہ قائم تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ