وزیرستان آپریشن کا ردعمل، پشاور حملوں کی زد میں
9 نومبر 2009طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت اور وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز سے ان حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مئی 2008ء میں حکومت سرحد اور سوات طالبان کے مذاکرات اور امن معاہدے کے خاتمے کے بعد پشاور، دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ہے۔
گزشتہ سال مئی کے وسط میں پشاور کے علاقہ کاکشال میں کار بم دھماکے سے اس سلسلے کا آغاز ہوا۔ سولہ مئی 2008سے 9نومبر2009ء تک سترہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں نے 284شہریوں کی جان لی ہے جبکہ اس دوران 778 افراد زخمی ہوئے۔ یہ دھما ’پبلک‘ مقامات پرکرائے گئے، جس سے عوام میں خوف وہراس پھیلتا گیا اور آج ہر شہری اسے حکومت کی پالیسیوں کانتیجہ قرار دیکر حکومتی ناکامی قراردیتے ہیں۔
آئے روز کے خودکش حملوں سے پریشان پشاور کے ایک شہری مشرف کہتے ہیں:’’ہر جگہ اب یہی خوف لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت دھماکہ ہوسکتا ہے، خواہ آپ بس میں سفر کررہے ہوں یا پھر کسی جگہ خریداری کرتے ہوں۔ یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت دھماکہ ہوسکتا ہے۔ والدین، بچوں کے اسکول جانے پر بھی پریشان ہیں۔ وہ اس وقت تک بچوں کی راہ تکتے ہیں جب تک وہ سکول یا کالج سے صحیح سلامت واپس نہیں آتے۔‘‘ مشرف کا مزید کہنا ہے کہ ناکام حکومتی اقدامات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی تک لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھا نہیں سکی ہے۔’’حالانکہ افغانستان کے زیادہ تر علاقے صوبہ سرحد اور بالخصوص پشاور کے مقابلے میں زیادہ پرامن ہیں۔ حفاظتی اقدامات بھی محض زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔ اس کا اندازہ گنجان آباد علاقوں میں ہونے والے دھماکوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔‘‘
ان دھماکوں میں جہاں عام شہریوں کونشانہ بنایاگیا وہیں پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ تازہ ترین خودکش حملہ، پشاور کے رنگ روڈ پر لطیف آباد چیک پوسٹ پر کیاگیا، جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت تین شہری ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے۔
ہر دھماکے کے بعد حکومتی دعوے سامنے آتے ہیں۔ سینئر صوبائی وزیر بشیراحمد بلور کہتے ہیں: ”دہشت گر د، معصوم اور بے گناہ افراد کاقتل عام کررہے ہیں لیکن پھر بھی مذہبی سیاسی جماعتیں ان لوگوں کو سپورٹ کررہی ہیں۔‘‘ بشیر احمد بلور کا مزید کہنا ہے کہ مذہبی جماعتیں یہ کہہ کر عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں کہ امریکہ، پاکستان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیکن بلور کہتے ہیں: ’’یہ سب کچھ امریکہ کے خلاف ہورہا ہے تو عوام کو بتائے کہ اب تک کئے جانے والے بم دھماکوں میں امریکی مرے ہیں یا ہمارے معصوم اور بے گناہ بچے اور خواتین کو نشانہ بنایا جا رر ہا ہے۔‘‘
ویسے تو پشاورمیں بم دھماکوں اورخودکش حملوں کاسلسلہ 80کی دہائی میں یہاں افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوا تاہم ان میں اس وقت تیزی آئی جب امریکہ اور اتحادی افواج نے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال شروع کیا۔ اس کے بعد افغان عسکریت پسندوں اور ان کے عرب، چیچن اور ازبک ساتھیوں نے پاکسان کے قبائلی علاقوں کارخ کیا، جہاں انہوں نے مقامی قبائل کی حمایت سے خود کو مضبوط کردیا۔
آج عام تا ثر یہی ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت اورمولوی عمر اور مسلم خان کی گرفتاریوں کے بعد اس میں مزید تیزی آگئی ہے۔
دریں اثناء وزیرستان آپریشن میں اب تک پانچ سو عسکریت پسندوں کی ہلاکت اور ان کے سو سے زیادہ ٹھکانوں کی تباہی کے دعوے کیے گئے ہیں تاہم طالبان کی لیڈر شپ کاتاحال پتہ نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عسکری رہنما جنوبی وزیرستان سے فرار ہوکر اورکزئی ایجنسی یا پھر شمالی وزیرستان میں پناہ لے رہے ہیں۔
رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور
ادارت: گوہر نذیر گیلانی