ولادیمیر پوٹن: سابقہ سوویت یونین کے زوال کے بعد کا زار
6 مئی 2018ولادیمیر پوٹن سابقہ سوویت یونین کے دور کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایک افسر تھے اور وہاں سے وہ ترقی کرنے کے بعد اب روس کے صدر بن چکے ہیں۔ انہیں اٹھارہ برس قبل اقتدار ملا تھا۔ رواں برس مارچ میں وہ چوتھی مدتِ صدارت کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ وہ اپنی نئی مدتِ صدارت کا حلف پیر سات مئی کو اٹھائیں گے۔
روس بھر میں صدر پوٹن کے خلاف مظاہرے، سینکڑوں مظاہرین گرفتار
روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جرمن صدر
روس نے ’اعصاب شکن مادہ‘ پوٹن کی نگرانی میں تیار کیا، برطانیہ
روسی انتخابات: ولادیمیر پوٹن کی ’تاریخی جیت‘
روسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے روس کے طول و عرض پر اپنا اختیار اور عملداری بھرپور انداز میں قائم کر رکھی ہے۔ اُن کے خلاف اٹھنے والی اپوزیشن کی آوازیں بتدریج خاموشی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر ماسکو کی ’گم شدہ طاقت‘ کے طور پر حیثیت ایک مرتبہ پھر بحال ہوتی جا رہی ہے۔ اُن کا مجموعی امیج بھی ایک قوت بخش حکمران کا بن چکا ہے۔
داخلی سطح پر اُن کی پالیسیوں میں تسلسل دیکھا گیا ہے اور اُن کے ملک میں بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اقتصادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ کوئی توانا اور زوردار اپوزیشن کی تحریک دور دور تک اٹھتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ اپوزیشن رہنما موجود ہیں، جو اُن کے طریقہٴ حکومت پر شاکی ہیں لیکن انتہائی بڑے ملک میں اِن لیڈروں کے حامیوں کی تعداد چھوٹے شہروں میں قدرے محدود خیال کی جاتی ہے اور وہ حکومتی اختیار کو پوری طرح چیلنج کرنے سے بھی قاصر دکھائی دیتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ روس ميں پوٹن کے حکومتی انداز نے جمہوریت کو قدرے دیوار سے لگا دیا ہے اور حکومتی ڈھانچے کے مختلف شعبوں میں سابقہ خفیہ ادارے کے قابل اعتماد افسران ایک نئی حکومتی اشرافیہ کے طور پر سامنے آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے روس عوام میں قوم پرستی کے جذبے کو ابھارنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
بین الاقوامی منظر نامے پر وہ اس وقت تیسرے امریکی صدر کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے قبل سابقہ صدور جارج بُش جونیئر اور باراک اوباما تھے، جن کے ساتھ پوٹن نے معاملات آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ روس نے کریمیا کو اپنی جغرافیائی حدود میں ضم کرتے ہوئے یوکرائن کے ساتھ جو دشمنی مول لے رکھی ہے، اُس پر یورپ اور امریکا برہمی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے شام میں بشار الاسد حکومت کی ہر طرح سے کھل کر حمایت و معاونت کی ہے۔
فوربز میگزین مسلسل چار برسوں سے انہیں جدید دور کے با اثر اورانتہائی طاقت کے حامل افراد کی صف میں شمار کر رہا ہے۔ ایسی تصاویر بھی سامنے آتی رہتی ہیں جن سے اُن کے جسمانی و دماغی طور پر مضبوط ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ جوڈو میں بلیک بیلٹ رکھنے والے پوٹن کی سائبیریا کے ٹھنڈے علاقے میں بغیر قمیض کے گھڑ سواری کرنے کی تصاویر بھی اُن کے امیج کو تقویت دیتی ہیں۔
ولادیمیر پوٹن سات اکتوبر سن 1952 میں سابقہ لینن گراڈ اور موجودہ سینٹ پیٹرزبرگ میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے شہر کے حوالے سے پوٹن نے سن 2015 میں کہا تھا کہ سینٹ پیٹرز برگ نے انہیں بچپن میں سکھایا ہے کہ اگر لڑائی ناگزیر ہو گئی ہے تو پہلا وار خود کرنا ہو گا۔ وہ سابقہ سوویت یونین کے دور میں سن 1985 سے سن 1990 تک اُس وقت کی کمیونسٹ ریاست ميں کے جی بے کے ايجنٹ کے طور پر مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں متعین رہے تھے۔
اقتدار کے ایوان میں داخل ہونے کا راستہ انہيں اُس وقت ملا جب سن 1999 میں پہلے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے روسی صدر بورس یلٹسن نے پوٹن کو سینٹ پیٹرزبرگ سے ماسکو طلب کیا۔ اسی برس انہیں یلٹسن نے اپنا وزیراعظم مقرر کر دیا۔ اسی منصب سے ان کی مقبولیت روس کے عوام میں پھیلنا شروع ہوئی۔
ع ح ⁄ ع س ⁄ اے ایف پی