ملک کے دارالحکومت اور تمام صوبوں میں اپنی خدمات پیش کرنے والی پولیس اہلکار خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این وومن نے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک تین روزہ تربیتی پروگرام منعقد کیا، جس کا مقصد وومن پولیس کو ملازمت سے قبل اور دوران ملازمت ہونے والی مشکلات، تنخواہوں میں کمی بیشی کے مسائل سے آگاہ کرنا اور ان کو ترقی کے مواقعوں کے بارے میں بتانا تھا۔
دنیا میں پولیس کا محکمہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سرفہرست ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی عوام میں یہ شعبہ ہمیشہ اسٹیریوٹائپ خیالات سے جڑا رہا ہے۔ پولیس کو عموماً کرپٹ، رشوت خور اور نکمے جیسے القاب سے پکارا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، جیسے کہ دیگر محکموں یا شعبوں میں انسانوں کے بجائے فرشتے تعینات ہوتے ہوں۔
ماضی میں پولیس کے پیشے کو اپنانے کے لیے مرد حضرات تک ہچکچاتے تھے تو چہ جائیکہ خواتین اس شعبے سے وابستہ ہوتیں۔ اس تربیتی پروگرام میں موجود خواتین پولیس اہلکاروں کی پراعتماد شخصیت اور آگے بڑھنے کی جستجو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وقت اور حالات پہلے کی طرح ہرگز نہیں رہے۔ تمام خواتین اہلکار انگریزی، اردو اور اپنی مادری زبان میں قدرے اعتماد سے اپنے مسائل اجاگر کرتی نظر آئیں۔ اس تین روزہ تربیتی پروگرام میں پہلے مرحلے میں مختلف عہدوں پر فائز خواتین پولیس اہلکاروں نے شرکاء کے سامنے اپنے مسائل پر روشنی ڈالی۔
تمام خواتین پولیس اہلکاروں نے پولیس محکمے میں مثبت پیش رفت کی بھی تائید کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج پڑھی لکھی اور اچھے خاندان کی لڑکیاں پولیس محمکہ میں نوکری کی خواہش مند ہیں، جو ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ دوسری جانب انٹرنیٹ کی بدولت اب خواتین پولیس کو بھی قومی اور بین الاقوامی تربیتی پروگراموں اور ترقی کے مواقعوں سے آگاہی حاصل ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اب خواتین پولیس اہلکار ایسے سیمینار اور ٹریننگ پروگراموں کا باآسانی حصہ بننے لگی ہیں۔
پولیس محکمے میں ملازمت کرنے والوں کے لیے دن رات کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ـ کسی بھی حادثے یا واردات کے پیش نظر جائے وقوعہ پر پہنچنا ان کے اولین فرائض میں شامل ہوتا ہے اور وہ اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔
مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین کے لیے یہ ملازمت کسی بھی طرح پھولوں کی سیج نہیں۔ اس کے باوجود انہیں سراہا نہیں جاتا۔ خواتین پہلے اس شعبے میں آتے ہوئے کتراتی تھیں لیکن جب سے پاکستان میں وومن پولیس تھانے بنے ہیں تو خواتین نے دیگر شعبوں کی طرح اس میں بھی قسمت آزمائی شروع کی۔
ہمارے سماج میں پولیس محکمے کو جوائن کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ گھر کے مرد حضرات ہوتے ہیں۔ خواتین کو اگر گھر سے اجازت مل بھی جائے تو پورا پدر شاہی نظام ، پولیس مرد اہلکاروں کی نسبت خواتین کو دوسرے درجے کا ملازم سمجھتا ہے۔ یعنی ہمت افزائی کے برعکس ترقی کے زینے پر قدم رکھنے سے پہلے ہی ہمیں ہر قدم پر روکا جانا معمول کی بات ہے۔
خواتین پولیس کا بھی اپنے بچوں، شوہر اور سسرال کے افراد کی بھی ذمہ داریاں پوری کرنا ایک فرض مانا جاتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ان کی ملازمت کس محکمے یا اس کی نوعیت کیا ہے۔ ڈیوٹی کے دوران اکثر انہیں اپنے بچوں کی خواہشات کو بھی پس پشت ڈالنا پڑتا ہے۔
ایک عورت ہونے کے ناطے ایک خاتون پولیس اہلکار کو صرف پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ہی نہیں پوری کرنی پڑتی بلکہ گھریلو مسائل، ازدواجی تعلقات اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر تمام ضروریات زندگی سے بھی نبردآزما ہونا پڑتا ہے، جو قطعاً آسان کام نہیں لیکن یہ خواتین کسی سے پیچھے یا کم نہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔