وکی لیکس انکشافات پر یورپی رد عمل
29 نومبر 2010اتوار کو منظر عام پر آنے والے ڈھائی لاکھ خفیہ دستاویزات پر یورپی میڈیا میں بہت لے دے ہو رہی ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے علاوہ برطانوی روزنامے ’دی گارڈین‘، جرمن جریدے ’ ڈیئر اشپیگل‘، فرانسیسی اخبار ’لے موند‘ اور ہسپانوی روز نامے ’ال پائس‘ نے بھی وکی لیکس کے یہ دستاویزات شائع کی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ مزید خفیہ دستاویزات آئندہ دنوں میں منظر عام پر آ سکتی ہیں۔
جرمن ہفت روزہ ’ ڈیئر اشپیگل‘ نے وکی لیکس کے ان انکشافات کو امریکی سفارتکاری کے لئے ایک المیہ قرار دیا ہے۔ ’اشپیگل آن لائن‘ تحریر کرتا ہے، ’امریکی جرمن سیاست کے رازوں کو خوب جانتے ہیں۔ وکی لیکس کی طرف سے منظر عام پر لائی جانے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن میں جرمن سیاسی اکابرین کو کس قدر تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان دستاویزات میں برلن حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کو نا اہل اور نا تجربہ کار قرار دیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں حکومتی اور خارجہ پالیسی معاملات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو زیادہ سوجھ بوجھ کی حامل اور تجربہ کار کہا گیا ہے۔ ان دستاویزات میں 2009 ء سے لے کر اب تک کی جرمن سیاست اور موجودہ مخلوط حکومت کی کار کردگی کا تنقیدی جائزہ بھی موجود ہے۔ 24 مارچ 2009 ء کی چند دستاویزات سامنے آئی ہیں، جن میں میرکل کو ’انگیلا ٹفلون میرکل‘ کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ جرمن چانسلر میرکل کسی قسم کے خطرات مول لینے سے گریز کرتی ہیں اور شاذ و نادر ہی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ امریکہ کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے میرکل اس امر پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں کہ اس سے اُن کی داخلہ سیاست کو کیا فائدہ پہنچے گا۔
دریں اثناء جرمنی کی حکمران جماعت سی ڈی یو کے خارجہ پالیسی کے ماہر سیستدان روپریشٹ پولنس نے کہا ہے کہ وکی لیکس کے دستاویزات سے ایران کے بارے میں جو انکشافات ہوئے ہیں، وہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے بارے میں جاری بحث پر اثر انداز ہوں گے۔ انہوں نے جرمن ٹیلی وژن پر ایک بیان میں کہا کہ ایران پر فوجی حملے کے بارے میں ماضی میں بھی چہ میگوئیاں ہوتی رہی ہیں تاہم سرکاری دستاویزات میں اس بارے میں تفصیلات سامنے آنے کے بعد صورتحال کہیں مختلف ہو سکتی ہے۔
وکی لیکس کی دستاویزات کے مطابق سعودی عرب کے فرمانروا عبداللہ واشنگٹن پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ تہران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے ایران پر حملہ کرے۔
اُدھر سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بِلٹ نے بھی سفارتکاروں کے بیانات پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے عمل کو نہایت خطر ناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسٹاک ہولم میں ریڈیو SR پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ وکی لیکس کے تازہ ترین انکشافات دنیا کے بہت سے تنازعات کے حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی