وکی لیکس، کلنٹن کا زرداری کو فون
4 دسمبر 2010امریکی وزارت خارجہ کے کیبلز کے وکی لیکس پر عام ہونے کے حوالے سے امریکی وزیرخارجہ نے پاکستانی صدر کو فون کیا۔ پاکستانی صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت جمعرات کے روز ہوئی، جس میں کلنٹن اور زرداری نے متفقہ طور پر نہ صرف ان دستاویزات کے غیر قانونی طور پر منظر عام پر آنے کی مذمت کی بلکہ کہا کہ ان دستاویزات اصل سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا گیا۔
وکی لیکس پر سامنے آنے والے ان دستاویزات میں پاکستان میں متعین امریکی سفیر کے وہ پیغامات بھی شامل تھے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
ان دستاویزات کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک موقع پر پاکستانی فوج صدر زرداری کو بزور طاقت اقتدار سے علیحدہ کرنے کا سوچ رہی تھی۔
فرحت اللہ بابر نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں رہنماؤں نے ان ’غیر رسمی سفارتی پیغامات‘ کے تناظر میں بات چیت کی۔
’’دونوں رہنماؤں نے متفقہ طور پر ان دستاویزات کو سفارتی عملے کی غیر رسمی گفتگو قرار دیا، جو کسی صورت باقاعدہ بات چیت نہیں تھی۔‘‘
وکی لیکس ان سفارتی دستاویزات کو قسط وار شائع کر رہی ہے جبکہ برطانوی اخبار گارڈین، کو اس ویب سائٹ کی جانب سے ان سفارتی دستاویزات کی ایڈوانس نقول فراہم کی گئی تھیں، جن سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ امریکی حکومت کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر شدید نوعیت کے تحفظات ہیں۔ امریکہ کو خدشات لاحق ہیں کہ پاکستانی جوہری ہتھیار کسی بھی وقت انتہاپسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں تاہم پاکستان ان الزامات کو مسلسل رد کرتا آیا ہے۔
ان کیبلز میں ایک جگہ یہ پیغام بھی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن کو کہا تھا کہ فوجی سربراہ اشفاق پرویز کیانی اور پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے چیف مل کر انہیں ’اقتدار سے باہر‘ کرنا چاہتے تھے۔
ان کیبلز میں یہ بھی درج ہے کہ پاکستانی صدر زردای ایسے خدشات کا بھی شکار تھے کہ انہیں کسی بھی وقت قتل کیا جا سکتا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ہلیری کلنٹن اور آصف زرداری کے درمیان ہونے والی بات چیت میں متفقہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ ایسی لیکس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو کسی صورت خراب نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادرات : کشور مصطفیٰ