يورپ ميں محفوظ مستقبل، ہزارہا پاکستانی بھی متلاشی
4 اکتوبر 2015ان دنوں يورپ کو مہاجرين کے حوالے سے دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی تاريخ کے بد ترين بحران کا سامنا ہے۔ شورش زدہ ممالک سے ريکارڈ تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے معاملے پر مختلف يورپی ممالک کے موقف يکساں نہيں۔ ہنگری کے ذريعے تين لاکھ سے زائد افراد مغربی يورپ کا رخ کر چکے ہيں۔ اس سلسلے کو روکنے کے ليے بوڈاپيسٹ کی حکومت نے مقابلتاً سخت رويہ اختيار کر رکھا ہے۔ ہنگری ميں تازہ ترين زمينی حقائق جاننے کے ليے ڈی ڈبليو نے دارالحکومت بوڈاپيسٹ سے تعلق رکھنے والی صحافی انيتا کوموويز سے خصوصی گفتگو کی۔
ہنگری ميں موجودہ صورتحال کيا ہے؟
اس وقت ہنگری اور سربيا کی سرحد پر باڑ لگائی جا چکی ہے جبکہ کروشيا اور ہنگری کی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔ چونکہ اب مہاجرين کے ليے سربيا کی سرحد عبور کرتے ہوئے ہنگری پہنچنا کافی دشوار گزار ہو گيا ہے، اب وہ سربيا، کروشيا اور ہنگری کا راستہ اختيار کر رہے ہيں۔ سياسی پناہ کے متلاشی ہزاروں افراد اب بھی روزانہ کروشيا پہنچ رہے ہيں، جہاں سے مقامی حکام انہيں بسوں کے ذريعے ہنگری کے بارڈر تک پہنچا ديتے ہيں۔ بعد ازاں ہنگری کے حکام مہاجرين کو دوبارہ بسوں کی مدد سے آسٹريا کی سرحد پر لے جاتے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ صورتحال اور راستے يوميہ بنيادوں پر تبديل ہو رہے ہيں۔ اہم بات يہ ہے کہ مہاجرين کی بڑی اکثريت مغربی يورپ کی جانب بڑھتی ہے اور وہ ہنگری ميں قيام کے خواہاں نہيں۔
سال رواں کے دوران کتنے ايشيائی يا بالخصوص پاکستانی اور افغان باشندوں نے ہنگری کے ذريعے مغربی يورپ تک رسائی کی کوشش کی؟
اقوام متحدہ کی ايجنسی برائے مہاجرين UNHCR کے مطابق 2015ء کے آغاز سے دو اکتوبر تک ہنگری کی سرحد پر پہنچنے والے کُل افراد کی تعداد 300,182 ہے۔ جنوری تا اگست 2015ء سياسی پناہ کے ليے ہنگری ميں اندراج کرانے والے پاکستانيوں کی تعداد 13,118 ہے۔ اسی عرصے کے دوران افغان مہاجرين کی تعداد 37,986 ہے جبکہ 3,554 بنگلہ ديشيوں اور 379 بھارتی باشندوں نے بھی ہنگری ميں اندراج کرايا۔
مہاجرين کی اصل تعداد اس سے کہيں زيادہ ہے کيونکہ يہ لوگ قانونی وجوہات کی بناء پر مغربی يورپ ميں سياسی پناہ کا اندراج کرانا چاہتے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ بالخصوص پاکستانی اور افغان شہری ہنگری ميں اندراج کرانے سے پرہيز کرتے ہيں اور وہ محض ہنگری سے گزرتے ہوئے مغربی يورپ کی طرف بڑھتے ہيں۔ ميں بارڈر پر لاتعداد پاکستانيوں اور افغان باشندوں سے ملی، جو انہی وجوہات کی بناء پر حکام سے بچے پھرتے ہيں۔
حال ہی ميں ہنگری کی حکومت نے پاکستان اور چند ديگر ممالک ميں انتباہی اشتہارات شائع کرائے، جن ميں غير قانونی تارکين وطن کو ہنگری نہ آنے کے ليے کہا گيا تھا۔ اس مہم کا مقصد کيا ہے؟
ميں نے سنا ہے کہ ايسے اشتہارات لبنان اور اردن کے اخبارات ميں بھی شائع کرائے گئے ہيں۔ ظاہر ہے ان کا مقصد سياسی پناہ کے متلاشی افراد کی ہنگری کے ذريعے مغربی يورپ کی جانب سفر کی حوصلہ شکنی ہے۔
مشرق وسطی کے شورش زدہ ملکوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان سے بھی لاتعداد افراد سياسی پناہ کے حصول کے ليے يورپ کا رخ کر رہے ہيں۔ ان افراد کے امکانات کيسے ہيں؟
سياسی پناہ کی ہر درخواست کا جائزہ انفرادی طور پر ليا جاتا ہے۔ پاکستان ميں سياسی صورتحال خواہ کيسی ہی ہو، پاکستانی شہريوں کے ليے سياسی پناہ کی وصولی ممکن ہے۔ ’محفوظ‘ مانے جانے والے ممالک کے شہری اگر يہ ثابت کر سکيں کہ انہيں اپنے ملک ميں تشدد کا سامنا ہے اور مقامی حکومت انہيں تحفظ فراہم کرنے ميں ناکام رہی ہے، تو ان کے سياسی پناہ کے امکانات اچھے ہو سکتے ہيں۔
ہنگری ميں حکام کے ہاتھوں مہاجرين کے ساتھ بد سلوکی کی کچھ رپورٹيں سامنے آئی تھيں۔ بوڈاپيسٹ حکام کا اس حوالے سے کيا رد عمل ہے؟
سربيا کی سرحد پر مہاجرين اور مقامی پوليس کے مابين تصادم کی متعدد رپورٹيں اور ويڈيوز سامنے آئی تھيں۔ ايک ويڈيو ميں پوليس اہلکاروں کو باڑ کی دوسری طرف افراد کو کھانا تقسيم کرتے ديکھا جا سکتا ہے۔ کچھ ايسی رپورٹيں بھی موجود ہيں کہ پوليس اہلکاروں نے صحافيوں پر چڑھائی کر دی۔ يہ سچ ہے کہ ہنگری کی حکومت نے اپنی سرحد پار کرنے والے مہاجرين کے ليے کچھ زيادہ نہيں کيا۔ عموماً رضاکار ہی تھکے ہارے مہاجرين کو کھانے پينے کی اشياء، رہائش کے ليے خيمے وغيرہ اور انٹرنيٹ فراہم کرتے آئے ہيں۔
البتہ ميں يہ بھی کہوں گی کہ جب کبھی بھی ميں بارڈر پر تھی، ميں نے پوليس اہلکاروں کو مہاجرين کے ساتھ تعاون اور اچھا برتاؤ کرتے ہوئے ديکھا۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہيے کہ پوليس اہلکار کئی ہفتوں تک کام سے تھک ہار چکے ہيں اور وقت کے ساتھ ان کی الجھنوں ميں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سبب تصادم کے امکانات زيادہ ہيں۔ يہ امر بھی کافی اہم ہے کہ سرحد پر پہنچنے والے مہاجرين اور مقامی حکام کو ايک دوسرے کی بات سمجھنے ميں دشوارياں پيش آتی ہيں۔ ميں نے ديکھا کہ جيسے ہی مترجم آتا اور بات چيت کا تبادلہ ہوتا، حالات فوراً بہتر ہو جاتے۔
ترکی، اردن اور لبنان ميں موجود مہاجرين کے ليے امداد ميں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی يورپی ملکوں کی کوشش ہے کہ ان ممالک ہی ميں مہاجرين کی مدد کی جائے تاکہ وہ خطرناک سمندری راستے اختيار نہ کريں۔ سفارتی سطح پر اور کيا کچھ کيا جا سکتا ہے تاکہ اس بحران ميں کچھ کمی لائی جا سکے۔
يہ ہماری تاريخ کے پيچيدہ ترين جيو پوليٹيکل يا جغرافيائی سياسی بحران ميں سے ايک ہے۔ ميں اس بارے ميں کچھ نہيں کہہ سکتی۔
کيا آپ مہاجرين کے اس بحران کو عنقريب حل ہوتے ہوئے ديکھتی ہيں؟
اگر شام اور ديگر شورش زدہ ملکوں سے آنے والی رپورٹوں کا جائزہ ليا جائے، تو يہ بات ظاہر ہے کہ مہاجرين کا يہ بحران عنقريب تو حل ہوتا نظر نہيں آتا۔