يورپی ممالک کو ایرانی تيل کی برآمد، بندش کا امکان
26 جنوری 2012تہران سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایرانی پارليمان کے توانائی سے متعلق کميشن کے ترجمان عماد حسينی نے کہا ہے کہ پارلیمانی کميشن اس حوالے سے ايک ایسے بل کا مسودہ تيار کر رہا ہے جو ممکنہ طور پر آئندہ اتوار کو ایوان ميں پيش کر ديا جائے گا۔
اس بل ميں يورپی ممالک کو ایرانی تيل کی برآمد مکمل طور پر روک دینے کی تجويز پيش کی جائے گی اور ایوان کی طرف سے منظوری کی صورت ميں تہران حکومت کو یورپی ریاستوں کو تیل کی برآمد فوری طور پر معطل کرنا پڑے گی۔
اس طرح امکان ہے کہ ایران يورپی يونين کی جانب سے اسی ہفتے پير کے روز تہران کے ساتھ تیل کی تجارت سے متعلق منظور کی گئی پابندیوں پر عملدرآمد سے پہلے ہی خود اپنے ہاں سے یورپ کو تیل کی سپلائی روک دے گا۔
پير کو برسلز ميں يورپی يونين کے ملکوں نے اپنے ایک اجلاس ميں ايرانی تيل کی درآمد روکنے کا جو فيصلہ کیا تھا، اس کی وجہ امريکہ اور يورپی ممالک کا ایران پر يہ الزام بنا کہ تہران اپنے ايٹمی پروگرام کے ذريعے مبینہ طور پر جوہری ہتھياروں کی تياری ميں مصروف ہے۔
اس کے برعکس تہران حکومت کئی مرتبہ اس الزام کی ترديد کر چکی ہے اور حکام کا دعویٰ ہے کہ ایرانی ايٹمی پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے، جس کے ذریعے ملک ميں توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنا مقصود ہے۔ ایران اس حوالے سے پہلے ہی کئی طرح کی غیر ملکی پابنديوں کی زد ميں ہے اور يورپی يونين کی تازہ ترین پابندیوں سے ايرانی معيشت کو لازمی طور پر مزيد نقصان پہنچے گا۔
برسلز ميں يورپی ملکوں نے اپنے حالیہ فیصلے کے تحت تیل کی ایرانی درآمدات کو فوراﹰ روکنے کے علاوہ یہ بھی طے کیا تھا کہ تہران کے ساتھ موجودہ معاہدے يکم جولائی تک ختم کر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ايرانی مرکزی بينک کے یورپی ملکوں میں تمام اثاثے منجمد کر دینے کا فيصلہ بھی کيا گيا تھا۔
ایرانی پارلیمان کے انرجی کمیشن کے ايک اور رکن ناصر سوڈانی کے مطابق جن ملکوں نے ایران کو نشانہ بنایا ہے، انہیں ایرانی تیل کا ایک قطرہ بھی نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا، ‘آئندہ دنوں کے دوران ايران کے ممکنہ اقدامات سے عالمی منڈيوں ميں تيل کی قيمتوں ميں اضافہ ہو گا اور یوں يورپی ممالک کو بھی درآمدی تيل مہنگے داموں خريدنا پڑے گا‘۔
يورپی يونين کے رکن ملکوں نے گزشتہ سال کے پہلے دس ماہ کے دوران مجموعی طور پر ايران سے یومیہ چھ لاکھ بيرل تيل درآمد کیا تھا۔ یوں چين اور بھارت کے ساتھ ساتھ يورپی يونين بھی ايرانی تيل کے بڑے خريداروں میں شامل ہے۔
رپورٹ: عاصم سلیم
ادارت: مقبول ملک