ٹرمپ بمقابلہ بائیڈن: کوئی فرق پڑے گا؟
2 نومبر 2020امریکی نظام حکومت میں صدر کے پاس خارجہ پالیسی طے کرنے کے وسیع اختیارات ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہر چھوٹا بڑا ملک دیکھنا چاہتا ہے کہ اس ہفتے کے صدارتی الیکشن کے بعد وائٹ ہاؤس میں اگلے چار سال کے لیے کون براجمان ہوتا ہے۔
پاکستان کے لیے صدر ٹرمپ کے پہلے دو سال اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ جنوری دو ہزار اٹھارہ میں صدر ٹرمپ نے پاکستان پر "جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی" کا الزام لگایا اور اور ایک ارب ڈالر کی فوجی امداد روک دی۔
وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان سخت بیان بازی بھی ہوئی لیکن پھر افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے معاملے پر سرد مہری کم ہونا شروع ہوئی اور پچھلے سال سے صدر ٹرمپ نے پاکستان کو کچھ اہمیت دینا شروع کی۔
جولائی دو ہزار انیس میں وائٹ ہاؤس میں عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ملاقات ان بدلتے رشتوں کا عروج ثابت ہوئی۔ دونوں رہنماؤں کی شخصیات میں بظاہر کئی قدریں مشترک نظر آئیں۔
مفادات کا ٹکراؤ
لیکن بین الاقوامی تعلقات میں ہر ملک اپنے مفادات کا فروغ چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ خود چونکہ کاروباری شخصت رہے ہیں اس لیے بطور صدر ان کی خارجہ پالیسی میں بھی پیسوں کے عوض کام لینے کا عنصر نمایاں رہا ہے۔
ڈیموکریٹک صدر ہو یا ریپبلکن، امریکا کے لیے خطے میں بھارت کو ایک قدرتی اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور چین کو ایک خطرے کے طور پر۔ بھارت دنیا کی ایک بڑی مارکیٹ ہے، جمہوری ملک ہے اور چین کا سب سے بڑا حریف بھی۔
اسی لیے امریکا اور بھارت سی پیک منصوبے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کئی دہائیوں تک امریکی کیمپ میں رہا، پاکستانی فوج اپنے افسران کی تربیت، جنگی سازوسامان اور ا مداد کے لیے امریکا پر انحصار کرتی رہی۔ امریکا میں ریپبلکن صدور پاکستانی فوج کی حمایت کرتے رہے اور جنرل ضیا ہوں یا جنرل مشرف فوجی حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے رہے۔ صدر ریگن ہوں یا جارج بش دونوں ادوار میں امریکا نے افغانستان میں جنگوں کے حوالے سے پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو اپنے مفادات کے لیے مضبوط کیا۔
اعتماد کا فقدان
امریکا اور پاکستان کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ میں وقت کے ساتھ ساتھ ملک کی سول ملٹری قیادت میں یہ تاثر مضبوط ہو چکا ہے کہ امریکا قابل اعتبار اتحادی نہیں۔ خود امریکی کانگریس اور پینٹاگون میں بھی یہ تاثر خاصا گہرا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ "دوغلا پن" دکھایا، کہا کچھ اور کیا کچھ۔
ایسے میں حالیہ دہائیوں میں پاکستان نے امریکا پر انحصار کم کرکے روایتی حلیف اور پڑوسی ملک چین کی طرف رجوع کیا اور اپنی دفاعی اور معاشی ضروریات کے لیے چین کے کیمپ میں آتا گیا۔
پاکستان کے لیے امریکا کی اہمیت
خطے کے اس منظرنامے کے باوجود اسلام آباد کے لیے امریکا کی آج بھی بڑی اہمیت ہے۔ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہے۔ اسے آئی ایم ایف سے قرضوں کے لیے امریکی حمایت درکار ہے۔ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ گِرے لِسٹ سے نکلنے کے لیے بھی اسے واشنگٹن کی مدد چاہییے۔
امریکا آج بھی پاکستان کا سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ ساڑھے چھ ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ تمام تر چیلنجوں کے باوجود، پاکستان میں آج بھی امریکا کی تین درجن سے زائد بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سرمایاکاری کر رکھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ امریکا میں جو بھی جیتے وہ پاک۔بھارت تعلقات میں توازن رکھے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی معاشی حالات کی وجہ سے بھارت کی برابری کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ان کا خیال ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بھارت کہیں زیادہ اہم ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ایک مجبوری کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت
ایک بات طے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا جو بائیڈن، پاکستان کی اہمیت افغانستان کی وجہ سے تو ہے ہی، لیکن بیس کروڑ کے اس ملک کی اپنی بھی ایک اہمیت ہے۔ پاکستان سے امریکا کو جتنی بھی شکایتیں ہوں، مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے طور پر واشنگٹن پاکستان کو مکمل طور پر نظرانداز بھی نہیں کرسکتا۔
پاکستان کے سیاسی و کاروباری حلقوں کے خیال میں ٹرمپ کی نسبت شاید ڈیموکرٹک امیدوار پاکستان کے لیے نسبتاﹰ بہتر ثابت ہوں۔ لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ جو بائیڈن کی جیت کی صورت میں دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں گے یا نہیں، اس کا بڑا دآرومدار پاکستان کے اندرونی حالات اور خطے کی صورتحال پر ہوگا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان میں موجودہ معاشی بے چینی اور سیاسی خلفشار کیا رخ اختیار کرتا ہے اور ملکی پالیسیوں کا تعین کون کرتا ہے۔