ٹرمپ کا مخصوص لہجہ، کیا کشیدگی میں اضافہ ہو گا؟
20 ستمبر 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وہی انداز اختیار کیا، جو ان کا خاصا ہے۔ اس اجلاس میں شریک رہمناؤں کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ ٹرمپ یہ خیال نہیں کریں گے کہ وہ کہاں اور کس سے مخاطب ہیں اور ٹرمپ نے انہیں مایوس نہیں کیا اور ان کے توقعات پر پورا اترے۔
امریکی صدر نے اس موقع پر شمالی کوریائی رہنما کم یونگ ان کو ’راکٹ مین‘ قرار دیا، جیسا کہ وہ پہلے اپنے ٹوئٹر میں بھی لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کم یونگ ان ’خودکشی کے مشن‘ پر ہیں۔ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری پروگرام پر عمل پیرا رہا تھا تو اس کمیونسٹ ملک کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا جائے گا۔
پیونگ یانگ سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں، جرمنی
جنرل اسمبلی سے ٹرمپ کا خطاب، ایران اور شمالی کوریا اہم
جنرل اسمبلی کا اجلاس، نگاہیں ٹرمپ کے خطاب پر جمی ہوئیں
اس تقریر میں ٹرمپ نے وہ انداز اختیار کیا، جو ابھی تک کسی امریکی صدر نے نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک عالمی رہنماؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا کہ دنیا کے کچھ علاقے ’دوزخ بنتے‘ جا رہے ہیں۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ صدارتی تقاریر کی تجزیہ نگار میری اسٹوکی نے اس بارے میں کہا، ’’میں نے ابھی تک نہیں سنا کہ کسی ملکی صدر نے کسی دوسرے رہنما کو ’راکٹ مین‘ کہہ کر پکارا ہو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی یہ بیان بازی پریشان کن ہے۔
صدارتی تقاریر اور بیان بازی کے تجزیے کی ’اے اینڈ ایم یونیورسٹی ٹیکساس‘ سے تعلیم حاصل کرنے والی جینیفر میرسیکا نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تقریر پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی صدر کی طرف سے ٹوئٹر پر بھی کسی عالمی رہنما کا مذاق اڑنا نامناسب ہے لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس طرح کا انداز اختیار کرنا زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ اسی طرح کئی تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا کی مکمل تباہی کی دھمکی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عدم استحکام پھیلانے والے بیانات
جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے امور کے ماہر نکولس ملر کہتے ہیں کہ جو الفاظ ادا کیے جاتے ہیں ان کے بھی نتائج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا اور ایران کے بارے میں بیان بازی عدم استحکام پھیلانے کا باعث ہے اور اس سے تنازعات کے انسداد اور جوہری ہتھیاروں میں کمی کی عالمی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
ملر کے بقول، ’’ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا کو مکمل تباہ کر دینے کی دھمکی سے صرف یہی ہو گا کہ پیونگ یانگ جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل کرنے پر غور کرے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بیان بازی سے شمالی کوریا تصور کر سکتا ہے کہ جنگ یقینی ہو چکی ہے۔
ملر کے بقول ایران کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کا بیان زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے تہران حکومت کو یہ پیغام جا سکتا ہے کہ واشنگٹن حکومت جوہری ڈیل کو ختم یا تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین طے پانے والی جوہری ڈٰیل کے خاتمے یا اس میں ترمیم کا عندیہ تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈیل سے امریکا کی دستبرداری سے ایران بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کر سکتا ہے۔
ملر کے خیال میں اس طرح مشرق وسطیٰ میں بھی ہتھیاروں کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی اور یہ امکان بھی پیدا ہو جائے گا کہ سعودی عرب جیسے ممالک بھی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش شروع کر دیں۔ ملر کے مطابق یوں شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام پر سفارتکاری زیادہ مشکل ہو جائے گی۔