1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کی افغان پالیسی پاکستان میں زیرِ بحث

عبدالستار، اسلام آباد
22 اگست 2017

پاکستان نے باضابطہ طور پر ٹرمپ کی افغان پالیسی اور اسلام آباد پر لگائے جانے والے الزامات پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے لیکن ملک میں سیاست دان اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے اس پر تبصرے جاری ہیں۔

https://p.dw.com/p/2idSi
USA Fort Myer Trump Rede Afghanistan Strategie
تصویر: Getty Images/M. Wilson

پاکستان کے ٹی وی چینلز پر کئی مبصرین اس پالیسی پر اپنی رائے دے رہے ہیں جب کہ آج اس پالیسی کو پاکستان کے تمام اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ چھاپا۔
معروف سیاست دان اور سابق پاکستانی سفیر برائے امریکا شیری رحمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی بیانیہ بہت جنگجوانہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک دفترِ خارجہ نے اس پر کوئی بیان نہیں دیا ہے ۔ تاہم ان کے خیال میں امریکا کی طرف سے ایسی پالیسی کاآنا متوقع تھا۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکا چین اور پاکستان کو ناراض کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں افغانستان کا مسئلہ عسکری نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ ق لیگ کے رہنما کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں ہے۔ مشاہد حسین نے کہا کہ ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ڈو مور کی روایتی پالیسی اپنا لی ہے۔
کئی تجزیہ نگار بھی مشاہد حسین کی اس بات سے متفق ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اس پالیسی پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’یہ کوئی غیر متوقع پالیسی نہیں ہے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ڈو مور کہا جا ئے گا۔لیکن پاکستان نے اپنے طور پر بہت کچھ کیا ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے دہشت گردی ختم کردی ہے اور جہاں ہمیں ٹھوس معلومات ملی ، ہم نے بلا تفریق کام کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی پالیسی بنانے والے خود ابہام کا شکار ہیں اور وہ الزام در الزام لگا کر پاکستان کو نچوڑنا چاہتے ہیں۔‘‘

Afghanistan Luftbild Gardez Hauptstadt der Provinz Paktia
ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان کر دیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

انہوں نے کہااس پالیسی میں بھارت کو اہم اضافی کردار دینے کی بات کی گئی ہے۔ ’’لیکن میرے خیال میں بھارت چالاک ملک ہے۔ وہ سری لنکا میں فوجی مداخلت کا نتیجہ بھگت چکا ہے۔ وہ وہاں اپنی فوجیں نہیں بھیجے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان کا حل عسکری طریقے سے ممکن ہے؟ پہلے ایک لاکھ کے قریب غیر ملکی فوجیں وہاں تھیں۔ اب صرف نو ہزار کے قریب ہیں۔ اب اگر امریکا چار ہزار اور بھیجے گا تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان پہلے ہی چین اور روس کے قریب ہے۔ اور اب ٹرمپ کی پالیسی کے بعد اسلام آباد ان ممالک کے مزید قریب ہوجائے گا۔ امریکی پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب کیوبا، شمالی کوریا اور ایران امریکی پابندیوں کے باوجود اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔ کیا ہم ان سے بھی کمزور ملک ہیں؟ کیا ہم دنیا میں الگ تھلگ ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔‘‘
معروف تجزیہ نگار اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ طلعت اے وزارت نے ٹرمپ پالیسی پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا نے اپنی پالیسی بنائی ہے اور ہمیں اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ واشنگٹن نے ہمیں پہلے جنگ میں جھونکا جس کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ ہمارے یہاں ٹی ٹی پی پیدا ہوئی۔ ہمیں امریکی پالیسیوں سے ہوشیار رہنا چاہیے ۔ وہ پاکستان کو مستقل حالتِ جنگ میں رکھنا چاہتا ہے اور سی پیک کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اور اب وہ قربانی کا بکرا تلاش کر رہا ہے اور ٹرمپ پالیسی بھی اسی بات کی عکاس ہے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری اور امریکا کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ہم عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ’’ہم نے یہ ضرب عضب جو شروع کیا تھا۔ مجھے کسی ایک نامی گرامی پاکستانی طالبان رہنما کا نام بتاؤ جس کو فوج نے مارا ہو۔ مجھے کسی ایک افغان طالبان رہنما کا نام بتاؤ، جو اس آپریشن میں فوج کا شکار ہوا ہو۔ آج بھی باجوڑ، کرم ایجنسی ، خیبر ایجنسی اور چمن کے ذریعے لوگ افغانستان جا کر وہاں تخریب کاری کر رہے ہیں۔ ہمیں اس پالیسی کو ترک کرنا چاہیے۔‘‘