ٹرمپ کی معاشی سیاست کا نتیجہ، امریکا میں سرمایہ کاری کم تر
12 جولائی 2018امریکی وزارت تجارت کے تحت کام کرنے والے اقتصادی تجزیوں کے دفتر یا بی ای اے (BEA) کے مطابق 2017ء میں امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 32 فیصد کم ہو کر تقریباﹰ 260 ارب ڈالر رہ گیا، جو 221 ارب یورو کے قریب بنتا ہے۔ اس سے ایک سال قبل 2016ء میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا یہی مجموعی حجم 380 ارب ڈالر کے قریب رہا تھا۔
اس طرح ٹرمپ کے دور صدارت میں ایک سال کے دوران امریکی معیشت میں کی جانے والی بیرونی سرمایہ کاری میں تقریباﹰ 120 ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ اس کے برعکس 2015ء میں امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا یہ سالانہ حجم 440 ارب ڈالر کے قریب تک پہنچ گیا تھا، جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔
ماہرین کے مطابق امریکا میں بیرونی سرمایہ کاری اگرچہ ایک ایسے بین الاقوامی رجحان کی وجہ سے بھی ہوئی ہے، جس نے ماضی کے مقابلے میں دنیا کی اس سب سے بڑی معیشت کو اب زیادہ متاثر کیا ہے۔ یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ای سی ڈی کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں قریب 18 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
لیکن جہاں تک امریکا کا سوال ہے تو وہاں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک بڑی وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں بھی بنی ہیں۔ دنیا کے کئی بڑے بڑے سرمایہ کار یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کی محصولات سے متعلق متنازعہ سیاست اور اقتصادی حفاظت پسندی کی سوچ کی وجہ سے فی الحال انتظار اور امریکا میں نئی غیر ملکی سرمایہ کاری سے اجتناب کریں گے۔
ان بیرونی سرمایہ کاروں اور کئی اقتصادی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر نے گزشتہ مہینوں میں واشنگٹن کے قریبی اور روایتی طور پر بڑے تجارتی ساتھیوں کے ساتھ جو تنازعات شروع کیے ہیں، فی الحال امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر ان کے اثرات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی لیے امریکا میں سرمایہ کاری سے متعلق فیصلوں میں اعتماد اور پیش رفت کے بجائے خدشات اور احتیاط پسندی زیادہ نمایاں ہیں۔
امریکا کو اس وقت جن ممالک یا خطوں کے ساتھ تجارتی جنگوں کا سامنا ہے، ان میں امریکا کا ہمسایہ ملک کینیڈا، دنیا کے دوسری سب سے بڑی معیشت چین اور 28 ممالک پر مشتمل یورپی یونین نمایاں ترین ہیں۔ لیکن دوسری طرف ٹرمپ صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد سے مسلسل یہ کوششیں بھی کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی سرمایہ کار شخصیات اور اداروں کو امریکا میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانا چاہیے۔ عملی طور پر ان کوششوں کے نتائج مثبت کے بجائے منفی ہیں۔
صدر ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں نے امریکا میں بیرونی سرمایہ کاری کو کس حد تک متاثر کیا ہے، اس کی ایک مثال جرمنی کی بھی ہے۔ جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں قائم ایک بہت بڑا ادارہ ’ویُورتھ‘ (Wuerth) بھی ہے، جو دنیا بھر میں تعمیراتی شعبے کی مشینری اور ساز و سامان فروخت کرتا ہے۔
اس ادارے کے سربراہ رائن ہولڈ ویُورتھ کہتے ہیں کہ انہوں نے ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکا میں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے ارادوں کو التوا میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے ادارے کی سالانہ آمدنی میں سے 1.8 ارب یورو یا 14 فیصد حصہ امریکا سے آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں چاہتا ہوں کہ ہم امریکا میں اپنی موجودہ کاروباری سرگرمیوں میں کوئی اضافہ نہ کریں۔‘‘ رائن ہولڈ ویُورتھ کے مطابق ان کا ادارہ امریکا میں اس وقت دوبارہ سرمایہ کاری کرے گا، جب ڈونلڈ ٹرمپ چلے جائیں گے۔
م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے