ٹرمپ کی پابندیاں، کیا ایران کو تکلیف پہنچا سکیں گی؟
2 نومبر 2018امریکا اس عزم کا اظہار کر چکا ہے کہ ایرانی تیل کی فروخت مکمل طور پر روک دی جائے گی جو ایرانی معیشت کا اہم ترین حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے لیے بین الاقوامی بینکنگ کے رابطے بھی ختم کر دیے جائیں گے۔ یہ اقدامات دراصل ایران کے خلاف اُن امریکی پابندیوں کی واپسی ہے جو ٹرمپ کے پیش رو باراک اوباما کے دور میں ہٹا لی گئی تھیں۔
تاہم اس وقت صورتحال 2012ء کے مقابلے میں کافی مختلف ہے جب اوباما انتظامیہ نے ایرانی معیشت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ ایران کو جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان پابندیوں کے تناظر میں اوباما انتظامیہ کو بین الاقوامی تائید حاصل تھی۔
ایران 2015ء میں طے پانے والے معاہدے پر، اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کے مطابق عملدرآمد کر رہا ہے۔ پھر ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے یورپی ممالک کے علاوہ چین اور روس ابھی تک اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔
واشنگٹن میں قائم ادارے اٹلانٹک کونسل میں ایران سے متعلق معاملات کی ماہر باربرا سلیون کے مطابق، ’’یہ 2012ء نہیں ہے جب دنیا ایران کے خلاف پابندیوں کے معاملے پر متحد تھی۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ ہے جو باقی ساری دنیا کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس پالیسی پر عملدرآمد کریں جسے زیادہ تر ممالک تسلیم ہی نہیں کرتے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے سلیون کا مزید کہنا تھا، ’’امریکا کو بڑی کمپنیوں کو خوفزدہ کرنے میں کچھ کامیابی ضرور ملی ہے۔ پابندیوں سے شدید مشکلات ہوتی ہیں۔ لیکن ایران پھر بھی تیل فروخت کرنے کے قابل رہے گا، خاص طور پر چین کو۔‘‘
امریکا یہ بات تسلیم کر چکا ہے کہ اسے اُن دوست ممالک کو کسی حد تک استثنیٰ دینا ہو گا جو ایرانی تیل کی خرید مکمل طور پر نہیں روکیں گے مثال کے طور پر بھارت اور جنوبی کوریا ایرانی تیل کی خریداری کے لیے اس طرح کے استثنیٰ کی امید کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایران اپنے تیل کی خفیہ طور پر فروخت کا عمل جاری رکھ سکے گا۔
یورپی یونین ابھی تک اپنی ان کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو ایران میں کاروبار کر رہی ہیں۔ یونین ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں کو ایک لیگل فریم ورک کی مدد سے امریکی پابندیوں سے بچانے کے ارادے کا اظہار کر چکی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے لیے مطالبات کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں جوہری پروگرام سے آگے کے معاملات شامل ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام سے واپس نکل جائے جہاں وہ شامی صدر کا اہم ترین حلیف اور مددگار ہے۔ اس کےعلاوہ علاقائی تنظیم حزب اللہ اور حماس کی حمایت سے بھی دستبردار ہو۔
پومپیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران یمن کے حوثی باغیوں کی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ لے جوسعودی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد کی فضائی کارروائیوں کا سامنا کر رہا ہے۔
ا ب ا / ع ت (اے ایف پی)