ٹوکیو کے شہریوں کے لیے تابکاری کا خطرہ کم ہے
16 مارچ 2011جوہری معاملات کے امریکی ماہرین نے یہ اطلاع ٹوکیو کے لاکھوں شہریوں کے لیے جاری کی ہے کہ ان کے لیے فوکوشیما کے جوہری پلانٹ سے نکلنے والی تابکاری شعاعیں کسی بڑے خطرے کا باعث نہیں بنیں گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ٹوکیو محفوظ زون میں واقع ہے۔ منگل کی شام کو ٹوکیو کے لیے تابکاری شعاعوں کے پھیلنے سے متعلق خطرے کی سطح نارمل سے دس گنا کر دی گئی تھی۔ ٹوکیو کا شہر دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 33 ملین ہے۔
جوہری ماہرین نے دارالحکومت ٹوکیو کی عام آبادی کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ کوشش کریں کہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔ کھڑکیوں اور دروازوں کو بند رکھیں۔ ماہرین کی جانب سے انفلوئنزا کے مریضوں کو بہت احتیاط کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار کرنے والوں میں امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ہیلتھ فزکس کے پروگرام انچارج جیرالڈ بُش برگ بھی شامل ہیں۔
جیرالڈ بُش برگ کے مطابق جوہری مرکز کے اندر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے والے ملازمین کو یقینی طور پر سرطان کے مرض کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ ایک خاص دائرے کے باہر کی آبادیوں کو سردست کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ منگل کو ایسے اندازے بھی سامنے آئے تھے کہ ٹوکیو شہر کی فضا میں تابکاری شعاعوں کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جتنی سی ٹی سکین کے وقت درکار ہوتی ہے۔
فوکوشیما کے جوہری مرکز پر منگل کے روز ایک اور دھماکہ ہوا تھا۔ فوکو شیما جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کے شمال میں تقریباً تین سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جوہری پلانٹ کا کولنگ نظام زلزلے کے جھٹکوں کے بعد مفلوج ہو کر رہ گیا تھا اور ایسے خطرات بھی موجود ہیں کہ اس جوہری کمپلیکس کے اندر اگلے دنوں میں مزید دھماکے ہو سکتے ہیں۔ مزید دھماکوں سے تابکاری شعاعوں کی کثیر مقدار حفاظتی علاقے سے باہر تک بھی پھیل سکتی ہے۔ پلانٹ کے اندر سردست کم از کم چالیس ورکر سمندری پانی کو پمپوں کے ذریعے تابکاری مقامات تک پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ پلانٹ پر جوہری آلات کو جلد از جلد ٹھنڈا کیا جا سکے۔ یہ افراد یقینی طور پر اپنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ سرکاری حکام کے مطابق منگل کے روز ہونے والے دھماکے کے بعد سے دو ملازمین تاحال لاپتہ ہیں۔
زیادہ تابکاری کے دائرے میں کام کرنے والے افراد میں سرطانی خلیوں کا پیدا ہونا یقینی ہے اور ایسا ہونا ان کے جسموں میں تھائی روئڈ غدود اور ہڈیوں کے گودے کے علاوہ خون میں بھی ممکن ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک