ٹی بی اور ایڈز سے متاثرہ خواجہ سرا سڑک پر رہنے پر مجبور
20 ستمبر 2016پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی تنظیم ’ٹرانس ایکشن الائنس‘ کے رکن قمر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 24 سالہ خواجہ سرا پائل کا تعلق کراچی سے ہے۔ اسے 9 سال کی عمر میں اس کے اہل خانہ نے گھر سے نکال دیا تھا۔ کراچی سے پائل اس کم عمری میں پشاور پہنچ گئی جہاں اس نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔
پائل ایک خوبصورت اور جوشیلی خواجہ سرا تھی لیکن تین ماہ قبل اسے سینے میں درد شروع ہوا جس کے بعد اسے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا۔ معائنے کے بعد پتا چلا کہ اسے ٹی بی کے ساتھ ساتھ ایڈز بھی ہے۔ اس ہسپتال میں پائل کو بستر تک نصیب نہ ہوا اور اسے ہسپتال میں ایک گدے پر رکھا گیا۔ بعد ازاں پائل کو حیات آباد کے ایڈز سینٹر میں داخل کرا دیا گیا۔ قمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے صرف دو مراکز ہیں ایک حیات آباد اور ایک کوہاٹ میں۔ ہم پائل کو لے کر حیات آباد کمپلیکس گئے جہاں اسے کچھ دوایاں دے کر تین دن کے اندر گھر بھیج دیا گیا۔‘‘
قمر بتاتے ہیں کہ ایڈز جیسی بیماری کے باعث پائل کو گھر واپسی پر کسی نے قبول نہ کیا، پائل کے گرو نے اسے گھر سے نکال دیا، دکھی اور دل برداشتہ پائل اپنا گھر ڈھونڈتی کراچی پہنچ گئی لیکن اس کے گھر والوں نے اسے پہچانے تک سے انکار کردیا اور کہا کہ اس کی بیماری اس کے گناہوں کی سزا ہے۔ جس کے بعد وہ واپس پشاور آ گئی اور اپنے گھر کے باہر سڑک پر پڑے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے کنارے رہنے لگی۔
قمر کا کہنا ہے کہ جب ان کی تنظیم کو پائل کے بارے میں پتا چلا تو انہوں نے ’یو این ایڈز‘ نامی ادارے سے رابطہ کیا جن کی کوششوں کے باعث اسے دوبارہ حیات آباد کے ایڈز سینٹر میں داخل کیایا گیا ہے۔ قمر کہتے ہیں،’’خواجہ سراؤں میں بھی سب اچھے نہیں ہیں، ان کی زندگیاں آسان نہیں ہیں اور پائل کی بیماری سے جڑے معاشرتی رویے اس کے لیے کسی غم سے کم نہیں۔‘‘
اب پائل حیات آباد کے ایڈز ہسپتال میں داخل ہے۔ قمر کہتے ہیں کہ لاہور میں پائل کے ایک دوست جو خود بھی ایڈز کا شکار ہے، نے پائل کے علاج معالجے کے اخراجات اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں بھی خیبر پختوانخواہ میں خواجہ سراؤں کو گولی مارنے اور ان پر تشدد کے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔ سول سوسائٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کو قتل، اغوا، ہراساں، جنسی زیادتی اور توہین کرنے جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواجہ سراؤں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ان سے بھتہ بھی مانگا جاتا ہے۔ خیبر پختوانخواہ کی حکومت نے ان شکایات کے پیش نظر اس مرتبہ صوبائی بجٹ میں ان کی فلاح و بہبود کے لیے ایک حصہ مختص کیا تھا لیکن ان کی بھلائی کے لیے عمل اقدامات اب تک واضح طور پر نظر نہیں آئے۔