ٹیلی کوم سکینڈل، نئی دہلی حکومت پریشان
23 نومبر 2010وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت کو ایک ہفتے سے بھی زائد عرصے سے اس سکینڈل کی بناء پر اپوزیشن کے دباؤ اور الزامات کا سامنا ہے۔ سابق وزیر مواصلات اے راجا پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں 2G موبائل لائسنس اونے پونے داموں فروخت کر کے قومی خزانے کو 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ اس رقم کے تناظر میں بھارتی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مالی سکینڈل ہے۔
پیر کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل ڈالا۔ انہوں نے اپنا مطالبہ دہرایا کہ مبینہ سکینڈل کی تفتیش کے لئے ایک کثیرالجماعتی کمیٹی قائم کی جائے۔
پیر کو پارلیمنٹ کی کارروائی مسلسل ساتویں روز ملتوی کی گئی، جس کے بعد وزیر خزانہ پرناب مکھر جی نے ایک کُل جماعتی اجلاس طلب کیا، جس کا مقصد پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل کو روکنا تھا۔
تاہم بی جے پی، اس کا اتحادی دائیں بازو کا گروپ شیو سینا اور دیگر اپوزیشن گروپ اس بات پر بضد ہیں کہ جب تک حکومت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی، وہ پارلیمنٹ میں احتجاج جاری رکھیں گے۔
شیو سینا کے رہنما منوہر جوشی کا کہنا ہے، ’ڈیڈ لاک ختم نہیں ہوا۔ یہ محض گفتگو کا ایک اور دَور ثابت ہوا ہے۔‘
دوسری جانب بھارت کے مرکزی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے اعلان کیا ہے کہ ٹیلی کوم سکینڈل کے اس مقدمے کی تحقیقات آئندہ برس مارچ تک مکمل ہوں گی۔
پیر کو سپریم کورٹ نے بھی اینٹی کرپشن کے نئے عہدے دار کی تقرری پر شبہات ظاہر کئے ہیں، جس سے ایک مرتبہ پھر اس مؤقف کو ہوا ملی ہے کہ حکومت اس سکینڈل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ پی جے تھامس نے سینٹرل ویجیلنس کمشنر کے عہدے کا حلف ستمبر میں اٹھایا تھا۔ اس وقت بی جے پی نے ان کی تقرری پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
خیال رہے کہ 187 بدعنوان ریاستوں سےمتعلق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ درجہ بندی میں بھارت کا نمبر 87 واں رہا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: افسر اعوان