ٹیکس چوروں نے یورپی حکومتوں کے پچاس ارب یورو چرا لیے
8 مئی 2019دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں بھی تجارتی شعبے پر مختلف شرحوں سے وہ ٹیکس عائد ہے، جو عام صارفین ادا کرتے ہیں اور جو ویلیو ایڈڈ ٹیکس یا VAT کہلاتا ہے۔ تقریباﹰ 50 ارب یورو کی یہ رقوم اسی مخصوص سیلز ٹیکس کی مد میں سرکاری خزانوں میں جمع کرائی جانا تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
کئی طرح کے مجرمانہ ہتھکنڈوں اور پیچیدہ طریقوں کی مدد سے جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے کی جانے والی یورپ میں اس طرح کی ٹیکس چوری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک جرمنی ہے، جو یورپی یونین کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست بھی ہے اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت بھی۔
درجنوں ممالک میں پھیلا ہوا نیٹ ورک
جرمنی کی ایک غیر سرکاری صحافتی تحقیقاتی تنظیم Correktiv نے اس بارے میں 30 ممالک کے صحافیوں کی مدد سے گزشتہ کئی برسوں کے اعداد و شمار جمع کیے، تو نتیجہ یہ نکلا کہ مالیاتی دھوکا دہی کا جو ایک واقعہ اس پیشہ ورانہ چھان بین کی وجہ بنا تھا، اس کے نتیجے میں جرائم پیشہ افراد کے گروہوں کا ایک ایک ایسا پورا نیٹ ورک سامنے آیا، جو برس ہا برس سے یورپی حکومتوں کی بیسیوں ارب یورو کی ٹیکس کی رقوم چوری کرتا آ رہا ہے۔
اس تنظیم کی منگل سات مئی کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مصنفین کے مطابق یہ ٹیکس چوری سب سے زیادہ جرمنی میں کی گئی، اور اس کی وجہ سے قومی سطح پر سب سے زیادہ نقصان بھی جرمن خزانے ہی کو ہوا۔
سہولت کا ناجائز فائدہ
یہ ٹیکس چوری خاص طور پر مہنگی اشیائے صرف یا اشیائے تعیش کی تجارت کے دوران کی جاتی ہے، جن میں گاڑیوں سے لے کر مہنگے موبائل فون تک بھی شامل ہوتے ہیں اور ماحول کے لیے نقصان دہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج سے متعلق وہ دستاویزات بھی، جو ’CO2 سرٹیفیکیٹس‘ کہلاتی ہیں۔
جرمن صحافتی این جی او ’کورَیکٹِیو‘ کے مطابق یہ جرائم پیشہ گروہ ان ٹیکس رقوم کی جو چوری کرتے ہیں، اس میں ان کے لیے سب سے بڑا چور دروازہ اس وجہ سے کھل جاتا ہے کہ یورپی یونین کے رکن مختلف ممالک میں وی اے ٹی ٹیکس کی شرح مختلف ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق، ’’یہ گروہ یونین کے اندر اشیاء اور پیشہ ورانہ خدمات کی آزادانہ نقل و حمل کی سہولت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی اشیاء زیادہ ٹیکس والی ریاستوں سے کم ٹیکس والے ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح انہیں ٹیکسوں کی ان رقوم کی قانونی واپسی کی سہولت بھی حاصل ہو جاتی ہے، جو انہوں نے ادا کی ہی نہیں ہوتیں یا جو رقوم وہ لوٹائے جانے کے بعد ان ممالک کو ادا کرتے ہی نہیں، جن کا ان پر قانونی حق ہوتا ہے۔
جرمن ٹیکس نظام کا ’مجرمانہ استعمال‘
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں مروجہ ٹیکس نظام ایسا ہے کہ اس سے بھی جرائم پیشہ گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے یا انہیں اس سسٹم کے غیر قانونی استعمال کا موقع مل جاتا ہے۔ یوں جرمن ریاست ایسے گروہوں کو مخصوص قانونی سقم کے باعث سالانہ اتنا زیادہ ٹیکس واپس کر دیتی ہے کہ اس کی مالیت پانچ ملین یورو سے لے کر پندرہ ملین یورو تک بنتی ہے۔
دوسری طرف ایسے گروہوں کے خلاف قانونی کارروائی کی خاطر تفتیشی ماہرین کے کام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی جرمن قانون ہی ہے۔ اس لیے کہ جرمنی میں وی اے ٹی نامی ٹیکس تمام سولہ وفاقی صوبوں کی انفرادی عمل داری میں آتا ہے، ہر صوبے کے اپنے قوانین ہیں اور وفاقی صوبے اس سلسلے میں اپنے اپنے اختیارات وفاقی حکومت کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
گیارہ کمپنیوں کا مالک جرمن نوجوان
اس رپورٹ میں شامل کردہ حقائق میں ایک ایسے جرمن نوجوان کی مثال بھی دی گئی ہے، جس کا تعلق جرمنی کے ایک مغربی صوبے سے ہے اور جو چند برس پہلے تک ایک مقامی اسکول کے پیچھے ایک خالی جگہ پر کھڑا ہو کر موبائل فون فروخت کرتا تھا۔
لیکن آج یہی جرمن باشندہ چند برس کے اندر اندر ٹیکس چوری کے نیٹ ورک کا ایسا مرکزی کردار بن چکا ہے کہ وہ گیارہ ایسی کمپنیاں چلا رہا ہے، جو سب کی سب دوسرے لوگوں کے ناموں پر کھولی گئی ہیں۔
یورپی یونین میں یکساں وی اے ٹی شرح کی تجویز
اس رپورٹ میں متعلقہ جرمن این جی او نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کی حکومتوں کے لیے اس طرح پہنچنے والے مالیاتی نقصان سے بچنے کا ایک ممکنہ راستہ یہ ہے کہ پوری یورپی یونین میں تجارتی شعبے کے لیے یکساں شرح سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس متعارف کرا دیا جائے۔
عملی طور پر یورپی یونین میں ایسے کسی متفقہ وی اے ٹی ٹیکس سسٹم کی حمایت کافی کم ہے۔ اب تک چیک جمہوریہ ہی یونین کا رکن وہ واحد ملک ہے، جس نے یونین میں وی اے ٹی سسٹم کے غلط استعمال کے ذریعے ٹیکس چوری کی روک تھام کے معاملے کو اپنے ہاں کے حکومتی ایجنڈے کا حصہ بنایا ہے۔