1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان تجارت میں بتدریج کمی کا رجحان

فریداللہ خان، پشاور
15 مارچ 2021

پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سے دو طرفہ تجارت میں مسلسل کمی ارہی ہے۔ اس باعث دونوں اطراف کے تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/3qeo8
Rückgang des pak-afghanischen Geschäfts
تصویر: Faridullah Khan

 پاک افغان سرحدوں پر پاکستانی تاجر شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سے طورخم سرحد پر سامان سے بھرے سینکڑوں ٹرک کئی کئی روز تک کھڑے رہتے ہیں جسکی وجہ سے تاجرو‍ں کو منافع کی بجائے نقصان کا سامنا ہے۔ زیادہ تر تاجر افغانستان سامان لے جانے سے گریزاں ہیں۔ افغانستان سامان لے جانیوالے ٹرک ڈرائیور اور دیگر عملہ بھی شدید ذہنی اذیت سے دو چار ہیں۔

پاک جرمن تعاون سے پاک افغان شہری ہم آہنگی مرکز کا افتتاح

تجارت میں مسلسل کمی

سن 2002 سے 2012 تک  کے دس سالو‍ں کے دوران پاک افغان تجارت کا حجم تینتیس ارب امریکی ڈالر رہا. اسکے بعد اس میں مسلسل کمی اتی رہی۔ سن 2019 میں تجارت کا حجم کم ہوکر 1.37 ارب ڈالر جبکہ2020 میں  مزید کم ہوکر 369 ملین ڈالر رہ گیا۔

Rückgang des pak-afghanischen Geschäfts
لنڈی کوتل میں طورخم کی سرحدی گزرگاہ سے کابل داخل ہونے والے ٹرکوں کا ہجومتصویر: Faridullah Khan

سہولتوں کا فقدان

طورخم میں خیبر چیمبر اف کامرس کے صدر محمد شفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے  سامان سے بھری گاڑیاں سڑک کنارے کھڑے ہونے پر مجبور ہیں، دونوں ممالک کی سرحدوں پر ٹیکنالوجی کا فقدان ہے جہاں پاکستان کی کمزوریاں ہیں وہاں افغان حکومت کی پالیسی ساز ادارے بھی سست روی سے کام لے رہے ہیں۔ اگر دونوں حکومتیں چاہیں تو یہ مسائل ایک ہفتے میں حل ہوسکتے ہیں کیونکہ پالیسی کا تعین تو حکومتیں کرسکتی ہیں۔‘‘

امن مذاکرات میں تعطل، پاک افغان تعلقات پر اثر انداز

تاجروں کی مشکلات

طورخم سرحد پر ٹرک ڈرائیور شیر زمان کا کہنا تھا ''  پہلے پشاور سے کابل تک کا سفر اٹھ گھنٹو‍ں میں طے کرتے تھے لیکن اب مشکلات اتنی بڑھ گئیں ہیں کہ کابل تک پہنچنے میں کم ازکم چھ سے سات دن لگ جاتے ہیں۔‘‘ پاک افغان سرحدی گزرگاہ طورخم میں تاجروں کو  بجلی، انٹرنیٹ اور جدید سکینر کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ افغانستان کی چیک پوسٹوں پر بھی تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے جسکی وجہ سے دونوں ممالک کی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

Rückgang des pak-afghanischen Geschäfts
سامان بردار ٹرک طورخم چیک پوسٹ پر سرحد عبور کرنے کے انتظار میںتصویر: Faridullah Khan

دیگر سرحدی مقام بھی کھولے جائیں

 مبصرین کے مطابق اس صورت حال کا فائدہ دیگر ممالک اٹھا رہے ہیں۔ جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے فیڈریشن اف پاکستان چیمر اف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حاجی غلام علی نے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا ''دونوں ممالک کے عوام اور تاجر برادری کی خواہش ہے کہ تجارت اور امد و رفت میں اسانی لائی جائے اور طورخم سرحد پر رش کی  وجہ سےدوسری سرحدی گزرگاہیں یعنی غلام خان ، نواں پاس اور چترال سمیت دیگر کو بھی کھول دینا ضروری ہے۔‘‘

افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات میں پاکستان کا کردار

غلام علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ، ''افغانستان سے پچیس فیصد اشیا درآمد کی جاتی ہے لیکن پچھتر فیصد اشیا پاکستان سے برآمد کی جاتی ہیں کیونکہ پاکستان کی صنعتیں فعال ہیں، ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ نہ صرف افغانستان سمیت تمام سارک مماک کے ساتھ تجارت میں اسانیاں پیدا کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائی جائیں۔‘‘

Rückgang des pak-afghanischen Geschäfts
ٹیکنیکل سہولتوں کی عدم دستیابی بھی ٹرکوں کو سرحد عبور کرنے میں حائل ہےتصویر: Faridullah Khan

افغانستان کا انحصار

لینڈ لاک اور جنگ زدہ افغانستان میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کا تمام تر انحصار ہمسایہ ممالک پر ہے۔ پاکستان ایک عر‌صے سے افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت میں اضافہ کرنے اور وسط ایشیا کی منڈی تک رسائی کیلئے کوشاں ہے تاہم ان ممالک تک رسائی اور تجارت بڑھانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم نہیں کیا جا سکا۔